شبہ لاحق ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تصویر فی نفسہٖ حرام نہیں بلکہ یہ مستحسن اور مطلوب امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال سے محبت کرتے ہیں اور انسان فنونِ لطیفہ کی صورت میں جو بھی لطافت دکھاتاہے تو وہ درحقیقت انسان کی روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی قوتوں کا اظہار ہوتا ہے اورانسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی ان تمام قوتوں کو فروغ دے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قوتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب بھی دی ہے۔البتہ یہ ضرور ملحوظ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں منع کی ہیں ، ان کے اندر کوئی نہ کوئی شیطانی دخل ہوسکتا ہے۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ تصویر ہو یا رقص وسرود، یہ موسیقی کی طرح فنونِ لطیفہ میں شامل ہیں جو کسی انسان کی فنی مہارت ہے بلکہ موسیقی روح کی غذا ہے۔میں کہتا ہوں کہ کم از کم یہ غور کر لیتے کہ یہ روح کی غذا ہے یا بدروح کی غذا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کا ذوق جمال ہے ۔میں کہتا ہوں کہ ذوقِ جمال تو انسان کا یہ ہے کہ وہ ہر وقت عورت صنف ِنازک کو دیکھتا رہے ۔کسی عورت نے مرد سے کہا تھا کہ تومجھے کیوں گھور رہا ہے : کسی کی جو صورت پہ ہوتے ہیں شیدا آخر وہ رنج واَلم دیکھتے ہیں ! تو مرد نے آگے سے دانشورانہ جواب دیا تھا کہ تم مجھے کیوں ملامت کرتی ہو : نہ تجھ سے غرض ہے نہ صورت پہ تیری مصور کا ہم تو قلم دیکھتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی تاویلیں کرنے والے تو بڑے ہیں ۔گلوکارہ نورجہاں بھی کہتی تھیکہ ہم سے زیادہ نیکی کا کام کون کرتا ہے؟ ہم توگانے اور اداکاری سے لوگوں کے مردہ دلوں کو زند ہ کرتے ہیں ، ان کے دل لگاتی ہیں ۔ اس طرح اگر یہ بات مان لی جائے تو دنیا کے تما م شیطانی کام جائز ہوجائیں گے۔پھر تونام نہاد فطرت کے بعض شیدائیوں کے بقول انسانوں کو ننگا پھرنا چاہیے اور لوگوں کو اپنا ننگا پن دکھانا بھیچاہیے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے دکھی انسانوں کو خوشی ملتی اور ان کاعلاج ہوتا ہے۔ |