Maktaba Wahhabi

121 - 127
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ ڈاکٹر ولیمز کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح برطانیہ میں یہودیوں کے مسائل کے لئے الگ عدالتیں قائم ہیں ، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے مسائل اپنے شرعی قوانین کے تحت حل کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ قوانین ہماری جمہوری اقدار کے منافی نہیں ہیں ۔‘‘ جبکہ مسلمان حکمران خود غیروں کے دباؤ پراسلامی قوانین کو وحشیانہ اور فرسودہ قرار دے رہے ہی۔ فیا للعجب ! حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز اپنے نظریہ کی بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے، جس چیز کا نظریہ ختم ہوجائے وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ مثلاخوشبو اُڑ جائے تو پھول بے معنی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم بے کار ڈھانچہ ہے، نقشہ ختم ہوجائے توتعمیر بے معنی اور محض تکلف ہے۔ مفہوم نکل جائے تو عبارت محض منتشر الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ اگر سورج بے حرارت اور چاند بے نور ہوجائے تو کائنات قیامت کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ بعینہٖ زندگی اور نظریۂ زندگی کا معاملہ ہے۔ اسی طرح پاکستان اور نظریۂ پاکستان کا معاملہ ہے۔ دونوں آپس میں اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ جدا نہیں کئے جاسکتے۔ گویا پاکستان اور نظریۂ پاکستان اس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کی پاسداری اور حفاظت ہی پاکستان اور اہل پاکستان کو تحفظ، بقا اور استحکام دے سکتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ 1. آئین پاکستان کی دفعہ ۳۱ کی رُو سے ریاست اپنا فرض پورا کرے اور بچوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں ایسی تعلیم دے کہ وہ بڑے ہوکر مملکت ِخداداد کے نہ صرف مفید شہری بنیں بلکہ وہ مکمل مسلمان بھی ہوں تاکہ دل جمعی سے ملّی اور ملکی تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں ۔ 2. دستورِ پاکستان کی دفعہ نمبر ۳۷ کی رو سے ثانوی تعلیم کی حد تک بچوں کو مفت تعلیم دے، اورساتھ ان کو تمام تعلیمی سہولتیں بھی مہیا کرے۔ 3. نظامِ تعلیم کو پاکستان کے بنیادی نظریہ کے مطابق ڈھالا جائے اور اسے قومی و ملّی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ 4. نصابِ تعلیم کو سیکولر بنانے کی سازش ختم کی جائے اور تمام نصابی کتب کو اسلامی اور نظریہ پاکستان کے مطابق ڈھالا جائے۔
Flag Counter