اپنے نیک صالح بھائی بندوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ قصور ان کا صرف یہ ہے کہ امریکہ، بھارت اوراسرائیل ان کو انتہا پسند اور دہشت گرد کہہ کر ان کے خلاف ایکش لینے کی تلقین کررہے ہیں ۔ ہماری تعلیم کا حشر آج کل ہم امریکہ کی زبردست تعلیمی و تہذیبی یلغار کی زد میں ہیں ۔ پاکستان کے مردِ مجاہد ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی توہین و رسوائی کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی اسلحہ کیوں بنا کردیا؟ ، امریکہ کی زیرنگرانی بننے والا آغاخاں تعلیمی بورڈ وغیرہ؛ یہ سب چیزیں تعلیم کے میدان میں ہماری بے بسی کو ثابت کرتی ہیں ۔ ڈاکٹرعبدالقدیر صاحب کا معاملہ دیکھ کر کون سائنس کے میدان میں آگے بڑھے گا۔ رہ گیا آغاخاں تعلیمی بورڈ تو اس کا کام صرف ہماری دینی بنیادوں کو مسمار کرنا اور ہند وپاک کا مشترکہ نصاب تیار کرنا ہے تاکہ ہم ہندوؤں کے ماتحت بن کر جینا سیکھ جائیں ۔ اس غرض کے لئے کہیں کنونشن منعقد کرکے افکارِ اقبال سے روشن خیالی کشید کی جارہی ہے اور کہیں راجہ راہر کی ۱۳۳۵ ویں برسی منائی جارہی ہے۔ بڑی عزت و احترام سے یہ برسی مناتے ہوئے جسقم (جئے سندھ) کے راہنماؤں نے کہا کہ دس رمضان سندھ کی غلامی اور راجہ داہر کی شہادت کا دن ہے۔ برسی کی تقریب میں لاڑکانہ کے سیاسی لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔‘‘ (ماہنامہ ’چمن بتول‘: شمارہ نومبر ۲۰۰۶) یہ ہے دن دیہاڑے ڈاکہ کہ راجہ داہر شہید ہے جبکہ فاتح سندھ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔یہ غلط تعلیم تو اب پاکستان کے وجود کو ہی چیلنج کررہی ہے کہ پاکستان بنانے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ’’برطانیہ کے پیٹن کالج کے نصاب میں اسلامی تعلیمات شامل کردی گئی ہیں ۔ اس کا مقصد اسلام کو بہتر طور پر سمجھنا ہے۔‘‘ اسی طرح چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بشپ آر کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے کہا ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلامی شریعت کے قانون کو اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ یہ لازمی ہے اس سے معاشرے میں معاشرتی ہم آہنگی قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اسلامی شرعی قوانین جمہوری اقدار کے منافی نہیں ہیں ۔‘‘ (رپورٹ روزنامہ نوائے وقت، مورخہ ۸ فروری ۲۰۰۸ء) |