دینی تصنیف نہ ہو اور جس کا تبحر علمی معروف نہ ہو، اسے دینی مدارس کے امتحانی ادارے کی قیادت آخر کیوں سونپی جائے…؟ 9.جیسا کہ دیگر اداروں میں نصب و عزل کے قواعد ہوتے ہیں ، اسی طرح وفاقوں کے لئے بھی بنائے جاسکتے ہیں مثلاً تقرر کے وقت، انتخاب کے لئے رائے شماری تحریری اور خفیہ ہونی چاہئے۔ اسی طرح اگر کوئی عہدیدار’ رکن‘ مدارس کا اعتماد کھو دے تو آئین میں اس کے عزل کا طریق کار بھی واضح ہونا چاہئے۔ 10. ہماری حکومتیں اکثر دینی مدارس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتیں اور اُنہیں اپنے تعلیمی منصوبوں میں حقیقی طور پر قبول نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے فضلا کے مستقبل کے لئے اچھے مواقع پیدا کرنے پر تیار ہیں ۔ ورنہ اُولی الامر ہونے کی حیثیت سے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے نظم و قواعد بنائیں اور نافذ کریں ۔ موجودہ حالات میں دینی مدارس کی قیادت کو خود ہی اِن معاملات کو سلجھانا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر ٹھنڈے دل ودماغ سے اداروں کوچلایا جائے۔ اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے کہ یہ اجتماعی معاملات میں ناگزیر ہوتاہے اور محض شک و شبہ کی بنا پر کسی کی علانیہ کردار کشی نہ کی جائے۔ اسلامی اخلاق کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کسی شخص کو وفاق کے عہدے کاطلب گار نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس کے لئے لابنگ اور جتھہ بندی کرنی چاہئے۔ اور اگر کوئی شخص احباب کا اعتماد کھو دے تو اسے منصب سے چمٹے رہنے کی بجائے خود ہی فوراً منصب سے الگ ہوجانا چاہئے کہ نزاہت اور اخلاقی عظمت اسی میں ہے۔ ان باتوں کے لئے اگر ناگزیر ہو تو قواعد و ضوابط بنائے جاسکتے ہیں جیساکہ کچھ دینی جماعتوں اور اداروں نے بنائے ہوئے بھی ہیں خصوصاً رفع نزاع کا طریق کار اورفورم بھی ان قواعد میں مذکور ہونا چاہئے۔ تلک عشرة کاملۃ دینی مدارس بالخصوص وفاقوں کے اہل حل و عقد سے درخواست ہے کہ وہ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں جو محض اخلاص اور دردمندی سے پیش کی گئی ہیں اور ان سے مقصود نہ کسی کی حمایت ہے اور نہ کسی کی مخالفت بلکہ وفاقوں کو بحیثیت ایک تعلیمی ادارہ مضبوط و مستحکم دیکھنے کی خواہش ہے۔ إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا بااللّٰه العلي العطیم |