اسی وجہ سے وفاق سے ملحقہ مدارس سے تعلق رکھنے والے علما اور طلبا اگر تعلیم و تعلّم کے علاوہ دوسرے دینی شعبوں میں کام کرناچاہتے ہوں اور مدارس بحیثیت ِآجر٭ کے، اگر اُنہیں اس امر کی اجازت بھی دے دیں تو ان علما و طلبا کو چاہئے کہ وہ دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کے تحت اور ان کے نام سے ہی کام کریں ۔ اس صورت میں کسی دینی مدرسے کا علما اور طلبا کی ان سرگرمیوں سے براہِ راست کوئی قانونی تعلق نہ ہوگا۔ اور مدرسے کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ بحیثیت ِآجر اپنے ملازم علما اور طلبا کو سیاسی، دعوتی، سماجی سرگرمیوں کی اجازت نہ دے۔ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ یہ تقسیم کار بہت ضروری ہے ورنہ بڑی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔ 2. تعلیم و تعلّم دینی اور دنیاوی لحاظ سے ایک پیشہ ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کا رویہ پیشہ ورانہ (پروفیشنل) ہونا چاہئے۔ اسی طرح سیاست بھی آج کل ایک کل وقتی پیشہ ہے اور ایک ایسا پیشہ جس میں اختلاف، کشمکش اور نزاع بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وفاقوں کو چاہئے کہ وہ ایک اُصولی فیصلہ کریں کہ ان کاکوئی عہدیدار ایسا عالم دین نہیں ہوگا جو عملاً سیاست دان ہو۔ 3. وفاقوں کو یہ فیصلہ بھی کرلیناچاہئے کہ کوئی ایسا شخص کسی وفاق کا عہدیدار نہیں ہوسکتا جو باقاعدہ سند یافتہ عالم دین نہ ہو یا مدرسے کامعلّم یا مہتمم نہ ہو اور نہ وہ کوئی ایسا شخص ہو جس کا اکثر وقت کسی دوسری سرگرمی مثلاً ملازمت یا تجارت وغیرہ میں گزرتا ہو۔ 4. وفاق سے ملحق دینی مدارس کا یہ بھی فرض ہے کہ اگر وفاق کے نظم کے مطابق عہدیداروں کا تعین الیکشن سے ہوتا ہو تو وہ اس انتخاب کو سرسری طور پر نہ لیں بلکہ اسے ایک زندہ سرگرمی بنائیں اور باقی اُمور سے قطع نظر صرف اس شخص کو ووٹ دیں جو وفاق کی تعلیمی سرگرمیوں کی دیکھ بھال کرنے کااہل ہو۔ سن رسیدہ،بیمار یا کسی دوسرے دینی شعبے میں مصروف شخص کو وفاق کا عہدیدار منتخب نہیں کرناچاہئے۔ 5. یہ طریقہ اور روایت بھی صحیح نہیں ہے کہ جو شخص کسی وجہ سے ایک دفعہ عہدیدار منتخب _______________ ٭ یہاں آجر کا لفظ مفہوم کی وضاحت کے لیے بولا گیا ہے جو مشاہرہ یا خدمت کے معنی میں ہے ۔ وگرنہ مدارس کے طلبہ جس نوعیت کا علم حاصل کرتے ہیں ، اس کو جنس بازار بنا کر اس کا معاوضہ کرنا ویسے ہی محل نظر ہے ۔ نہ ہی اپنے طلبہ کے لیے یہ ہدف مدارس کے منتظمین و معاونین بلکہ خود طلبہ کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ ح م |