بنانا شرعاً جائزنہیں ہے، بالفرض اگر محدود مقاصد کے حصول کی خاطر کوئی محدود جماعت یا انجمن بنائی جاسکتی ہے اور اس محدود جماعت یا انجمن کا نظم الجماعۃ کے نظم کی مانند بھی ہو سکتا ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی ایسا نظم اختیار کیاجا سکتا ہے جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہولیکن بیعت جو اللہ تعالیٰ سے ایک سودے یا جان ومال کے معاہدے کا نام ہے وہ الجماعۃ کے امیر کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں الجماعۃ کے امیر آپ بذاتِ خودتھے لہٰذا بیعت بھی آپ کی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد الجماعۃ کا امیر مسلمانوں کا خلیفہ ہوتا تھا، لہٰذا بیعت اس خلیفہ کی ہوتی ہے اور اگریہ خلفا مختلف علاقوں میں ایک سے زائد ہوں جیساکہ بنو عباس کے دور میں اَندلس میں بنو اُمیہ کی حکومت تھی توہر خلیفہ کی اس علاقے کے لوگوں پر بیعت واجب ہے۔اور اگر ایک ہی علاقے میں ایک سے زائد افراد خلیفہ ہونے کا دعویٰ کریں تو پہلے کی خلافت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سے بیعت کی جائے اورمتا خرخلیفہ کو جو مسلمانوں سے اپنی خلافت پر بیعت لے رہا ہو،قتل کر دیا جائے گا۔ اگر صورتِ حال یہ ہو کہ کسی علاقے میں مسلمانوں پر کفار کی حکومت ہو تو اگر کوئی مسلمان کافر کی حکومت کو ختم کر نے اور اپنی امارت قائم کرنے کے لیے جماعت بنائے تو ایسی جماعت کا امیر بھی اپنی جماعت کے اراکین سے بیعت لے سکتا ہے جیسا کہ سید احمدبریلوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بیعت لی تھی۔اسی طرح مسلمانوں کا کوئی حکمران’ کفر بواح‘ کا مرتکب ہو یا تارک ِصلاۃ ہو تو کوئی مسلمان اگر ایسے حکمران کی امامت ختم کرنے اور اپنی امامت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہو تو ایساشخص بھی اپنی جماعت کے افراد سے بیعت لے سکتا ہے ۔اس انفرادی امامت پر اس اجتماعی امامت (ریاست) کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جس کا آئین ودستور اسلامی ہو، لیکن اگر کوئی شخص امارتِ شرعیہ کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا ہو اور اس کے لیے اس نے کوئی جماعت بنائی ہو اور وہ خود امامت کا مدعی نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے عام مسلمانوں سے بیعت لینا جائزنہیں ہے کیونکہ بیعت ِامارت و جہادیا تو الجماعۃ کے امام کے لیے ہے یا اس کے لیے جو الجماعۃ کی امامت کے حقدار ہونے کا مدعی ہو جیساکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا معاملہ تھا۔ واللّٰه أعلم بالصواب |