بندوں کے درمیان اس معاہدے کے وقت اہل ایمان تو خودموجود ہوتے ہیں جبکہ اللہ کی طرف سے اس کا نمائندہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدے میں بالفعل شریک ہوتے ہیں ۔ اس آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں سے یہ معاہدہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ اس کے رستے میں اپنی جان اور مال خرچ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کوبدلے میں جنت دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے جس میں اس کے مؤمن بندوں کواپنی جان اور مال کھپانا ہے ؟ظاہر بات ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت اس بات کا تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کرسکتے تھے، اس لیے کہ بیعت یوں تو بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے لیکن معاہدۂ بیعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فریق معاہدہ نہیں ہوتے بلکہ معاہدے کے فریقین اللہ تعالیٰ یا عام اہل ایمان ہوتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے ایک نمائندہ بن کر یہ معاہدہ کرتے ہیں او ر ایک بندہ مؤمن کے لیے ا س مقام کومتعین کرتے ہیں جہاں اس نے اپنی جان اور مال و دولت کو کھپانا ہے۔اسی بات کو قرآن نے ایک اور انداز سے بیان کیاہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یُدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلی نَفْسِہٖ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عَاھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہِ فَسَیُؤتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (الفتح:۱۰) ’’بلا شبہ جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں ، وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ۔اللہ کا ہاتھ ا ن سب کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پس جس نے (اپنا معاہدہ) توڑ دیا تو اس کے توڑنے کا وبال اسی پر ہو گا اور جوکوئی اللہ سے کیے گئے معا ہدے کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو عنقریب اس کا بہت بڑا اجردیں گے۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت در حقیقت اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔اور جو بیعت کو توڑتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے کیے گئے ایک معاہدے کو توڑتا ہے اور جو بیعت کو پورا کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے ایک معاہدے کو پورا کرتا ہے ۔ بیعت اللہ ہی کی کیوں ہوتی ہے؟ اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں جو اوپر والی بحث کے نتیجے میں پیدا ہوتاہے کہ بیعت |