Maktaba Wahhabi

31 - 79
البتہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب کا نام ’میزان‘ ضرور رکھا ہے، گویا اُنہیں یہ اِدعا ضرور ہے کہ ان کی یہ کتاب ایک میزانِ عدل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک طرف تو وہ یہ حیثیت قرآن کو دیتے ہیں ، اور ساتھ ہی اپنی تصنیف کو بھی اسی شان سے متصف ٹھہراتے ہیں !! 6.کبھی صرف قرآن میزان ہے تو کبھی سنت بھی میزان! غامدی صاحب کبھی صرف قرآن کو میزان قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کے ساتھ سنت کو بھی میزان ٹھہراتے ہیں ۔ کبھی ایک میزان اور کبھی دو میزانیں ۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’قرآن میزان ہے … چنانچہ تولنے کے لئے یہی ہے۔ اس دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس پر اسے تولاجاسکے۔‘‘ (میزان: ص۲۲ ، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء) ’’ہر چیز اب اسی میزان (قرآن) پر تولی جائے گی۔‘‘ (میزان: حصہ اوّل، ص۱۴۰، طبع ۱۹۸۵ء) مگر دوسرے موقع پر صرف قرآن ہی میزان نہ رہا بلکہ قرآن کے ساتھ سنت بھی میزان بن گئی۔ پہلے ایک میزان تھی، اب دو ہوگئیں اور تضاد بالکل واضح ہوگیا۔ چنانچہ ’اشراق‘ جس کے مدیر غامدی صاحب ہیں ، میں یہ اشتہار عرصے تک چھپتا رہا کہ ’’قاری محترم ! اشراق ایک تحریک ہے، علمی تحریک … فکر و نظر کو قرآن و سنت کی میزان میں تولنے کی تحریک… ‘‘(ماہنامہ اشراق، بابت اپریل تا دسمبر۱۹۹۱ء) اس طرح غامدی صاحب ایک طرف صرف قرآن کو میزان قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف سنت کوبھی میزان مانتے ہیں اور یہ چیز اُن کے ہاں کھلے تضاد کی صورت میں موجود ہے!
Flag Counter