Maktaba Wahhabi

30 - 79
میں کمی نہ کرو۔ ان آیات کا سیدھا سادا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کے بعد انسانوں کو میزان کا تصور دیاہے تاکہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں ، تول پورا رکھیں اور تول میں ہرگز کمی نہ کریں ۔ یہ آیات بھی قرآن کے میزان ہونے کی نفی کرتی ہیں ۔ کیونکہ آسمان، زمین، سورج اور چاند کی تخلیق کے ساتھ اوّل روز سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو میزان یعنی عدل و انصاف کا تصور دیا اور پھر حکم دیا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں ، ترازو سیدھی تولیں اور ڈنڈی نہ ماریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزول سے بھی بہت پہلے وضع المیزان (میزان رکھی گئی) ہوچکی تھی۔ اس لئے قرآن کو میزان قرار دینا کسی طرح صحیح نہیں ۔ 4. ایک معمولی عقل کا آدمی بھی جانتا ہے کہ میزان (ترازو) کاکام کسی شے کو صرف تولنا اور اس کا وزن بتانا ہوتا ہے، اس کا کام اچھی اور بُری یا اصلی اور نقلی چیز میں فرق و امتیاز کرنا نہیں ہوتا۔ آپ اصلی اور نقلی سونے کو تول کر اُن کاوزن معلوم کرسکتے ہیں مگر میزان کے ذریعے سونے کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتہ نہیں چلاسکتے۔ میزان کا کام تولنا ہے، وہ کھری چیز کو بھی تولے گی اور کھوٹی چیز کو بھی تولے گی، وہ حلال شے کوبھی تولے گی اور حرام شے کو بھی تولے گی مگر وہ کھری اور کھوٹی چیز میں یا حلال اور حرام شے میں امتیاز نہیں کرسکے گی۔ غامدی صاحب کومعلوم ہونا چاہئے کہ جب وہ قرآن کو ’میزان‘ قرار دیتے ہیں تو وہ گویا قرآن کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ گویا نعوذ باللہ قرآنِ مجید ایک ایسی میزان ہے جو اس لئے نازل ہوئی تاکہ لوگ اس کے ذریعے سے ہر طیب، نجس، پاک اور ناپاک چیز کو تول کر اس کاوزن معلوم کرلیا کریں ۔ 5. دراصل غامدی صاحب کے لئے قرآن کو ’میزان‘ کہنا ایک ’ضرورت‘ ہے تاکہ وہ اس کی آڑ میں آسانی سے جس حدیث کا جب چاہیں ، یہ کہہ کر انکار کردیں کہ یہ تو قرآن کی ’میزان‘ پر تولنے کے بعد ’باطل‘ ثابت ہوئی ہے لہٰذا اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔ یاد رہے کہ غامدی صاحب اپنی اس ’میزان ‘ کے حربے سے بالفعل بہت سی احادیث ِصحیحہ کا انکار کرچکے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن میزان ہے ایک بالکل بے اصل بات ہے۔
Flag Counter