3. صوبہ سرحد میں خودساختہ کمیٹیوں کا وجود بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کی بنا پر اختلاف واقع ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں اجتماعی طورپر ایک مرکزی نظم کے تحت رؤیت ِہلال کاباقاعدہ نظام موجود ہو، اور اس کو شرعی تقاضوں کے مطابق چلانے کی کوشش بھی کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں پرائیویٹ کمیٹیوں کا وجود درست نہیں ۔ یاد رہے کہ عید اور رمضان میں صرف چاند دیکھ لینا کافی نہیں بلکہ اس کی شہادت کے بعد قاضی کا فیصلہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گواہوں کا آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکرکرنا اور آپ کے حکم دینے کا تذکرہ بھی موجود ہے، تب ہی دیگر مسلمانوں پر اس روزہ یا عید کا انعقاد لازمی قرار پاتا ہے۔ ایسا شخص جس نے خود چاند دیکھا لیکن اس کی شہادت کو قبول نہیں کیا گیا، تو اس بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ اکثر کے نزدیک اگر تو وہ رمضان کا ہلال ہے تو اس کو خود روزہ رکھنا چاہئے، البتہ دیگر لوگ اسی صورت میں روزہ رکھنے کے پابند نہ ہوں گے جب تک قاضی اس شہادت کو قبول نہیں کرے گا، جبکہ چند علماکے ہاں خود وہ شخص بھی روزہ رکھنے کا پابند نہیں ہے۔ جہاں تک عید کے چاند کا تعلق ہے تو چونکہ اس کے لئے ایک کی شہادت کافی نہیں ہے، اس لئے اس صورت میں ایسے شخص کوروزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ علاوہ ازیں عید اور روزے کے بارے میں مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((الصوم یوم تصومون والفطر یوم تُفطرون والأضحی یوم تضحون)) ’’روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطراور عیدالاضحی بھی اس دن منائی جائے جب لوگ عید مناتے ہیں ۔‘‘ (جامع ترمذی:۶۹۷) اس فرمان سے معلوم ہوا ہے کہ ان چیزوں میں اجتماعیت کو خاص دخل حاصل ہے، کوئی شخص اکیلے عید نہیں کرسکتا۔اس بنا پر بعض علما نے ملک بھر میں ایک ہی روز عید یا ایک ہی دن روزہ کی جو توجیہ پیش کی ہے تو ان کے پیش نظر یہی اجتماعیت ہے۔ وگرنہ اجتماعیت کے ماسوا شریعت کی نظر میں ان ملکی سرحدوں کی کیا حیثیت ہے، اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں کو رؤیت ِہلال کا ہی پابند بنایا ہے، اور چاند کی رؤیت میں مطالع کا اختلاف ان ملکی سرحدوں سے بالاتر ہے، یہی بات بعض ممتاز حنفی علما نے بھی کہی ہے، کہ ملک بھر میں اختلافِ مطالع کے باوجود ایک عید |