Maktaba Wahhabi

23 - 79
جہاں تک بلادِ بعیدہ کا مسئلہ ہے تو ا س بارے میں علما کے ہاں مختلف اقوال موجود ہیں : ٭ بعض کے نزدیک وہ شہر جو ۵۰۰ یا ۶۰۰ میل کی مسافت پر ہوں ، بلادِ بعیدہ ہیں ۔ ٭ ایسے دو شہر جن کی رؤیت میں عادتاً اختلاف واقع ہوتا ہے کہ اگر ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے لازمی کردی جائے تو ایک کا مہینہ ۳۰ دن کا اور دوسرے کا ۲۸ دن کا رہ جائے گا، تو وہاں اختلافِ مطلع معتبر ہے مثلاً مصر وحجاز کا مطلع ہند وپاک سے یقینا مختلف ہے۔ ٭ بعض ماہرین کے نزدیک ایسے شہر جوایک ہی طول بلدپر واقع ہیں ، ان کا مطلع ایک ہی ہوگا چاہے ان میں زمینی بعد کتنا ہی کیوں نہ ہو مثلاًریاض اور ماسکو ایک ہی طول بلد پر ہیں تو ان کا مطلع بھی ایک ہی ہے۔ ٭ بعض لوگوں نے اختلافِ مطالع کو صوبوں اور ملکوں کی حدود میں اور بعض لوگوں نے ایک حاکم کی ماتحت رعایا کی بنا پر بھی اسے تقسیم کرنے کا موقف اختیار کیا ہے۔ ٭ بعض لوگوں نے اسے مسافت ِقصر، بعض نے ایک رات کی مسافت، بعض نے ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز کے وقت داخل ہو جانے پر، مثلاً ایک شہر میں ظہر کا وقت ہو تو دوسرے شہر میں اسی وقت عصر پڑھی جاتی ہو، اختلافِ مطالع کو محمول کیا ہے۔ ٭ اہل مشرق کی رؤیت تو اہل مغرب کے لئے معتبر ہے لیکن اس کے برعکس نہیں ۔ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ لکھنؤ نے اس سلسلے میں ۱۹۶۷ء میں ایک ایسے چارٹ کی سفارش کی تھی جس میں اختلافِ مطالع والے ممالک کی تفصیلات درج ہوں ۔ بالفرض اگر اختلافِ مطالع ایک مستقل اور غیرمتبدل حد بندی ہے تو پھر اس سلسلے میں سائنس سے ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔ اور ایسے چارٹ پر شرعی تقاضوں کے مطابق ضروری تفصیلات کااضافہ بھی کردینا چاہئے تاکہ اس کو سامنے رکھتے ہوئے رؤیت ِہلال کے عمل میں آسانی حاصل ہو۔ الغرض اختلافِ مطالع کی جو بھی تفصیل ہو، یہ امر ایک مسلمہ زمینی حقیقت رکھتا ہے۔ اس بنا پر بالفرض اگر پشاور کے گرد ونواح کا مطلع فی الواقع ملک کے دیگر حصوں سے مختلف ہے تو مشاہدہ کی بنیاد پر ان کو علیحدہ عید یا روزہ کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے جس کی بنیاد بہرحال مشاہدہ ہی ہوگا۔
Flag Counter