یادِ رفتگاں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ہمارے اُستاذ مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کی چند یادیں ہمارے شیخ محترم رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر پاک وہند کے اساطین العلم اور شیخ الشیوخ میں ہوتا ہے جن کی علمی،ادبی اور حدیثی خدمات تاریخ کا سنہرا باب ہے۔دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے تلامذہ کا سلسلۂ ذہبی وسیع وعریض نظر آتا ہے جن کو احاطہ قلم میں لانا مشکل امر ہے۔یہ قبولیت ِعامہ کی ایک واضح اور بین دلیل ہے۔موصوف کے بارے میں نامور مؤرخ مولانا محمد اسحق بھٹی کا مضمون ’محدث‘ کے شمارۂ اپریل۲۰۰۷ء میں چھپا جو کافی و وافی معلوماتی ذخیرہ ہے۔ اثناے کلام میں رقم طراز ہیں کہ ’’اکتوبر ۱۹۶۴ء میں بغیر کسی درخواست کے اسلامی یونیورسٹی مدینہ طیبہ سے تدریس کی دعوت آئی۔۱۹۸۰ء تک سولہ سال وہاں حدیث،علوم حدیث اور اسلامی عقائد پر محاضرات (لیکچر) دیتے رہے۔‘‘ اس سے قبل اسی قسم کے الفاظ ’الاعتصام‘ میں مولانا ارشاد الحق اثری کے مضمون میں بھی شائع ہو چکے ہیں جس کے پس منظر کی ان سطور میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ وہ دور تھا جب علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں مرجع العلم والعلماء کی حیثیت اختیار کر گیا تھا ۔طالبین علم ہمہ وقت ان کے گرد جمع رہ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے،یہاں تک کہ فسحۃ طویلۃ (لمبے وقفہ)میں بھی کلاس رومز کے سامنے زمینی مجالس سے بھی سوال وجواب کی شکل میں خوب مستفید ہوتے۔ پھرجمعرات کو چھٹی کے بعد باقاعدہ چند بسیں طلبہ کو لے کر کسی تاریخی مقام پر پہنچ جاتیں جہاں طلبہ آپ کی قیادت میں پڑاؤ ڈالتے اور جمعہ کی شام تک علمی مجالس کا انعقاد جاری و ساری رہتا ۔ یہ سارا ماحول شائقین علم کے لیے انتہائی مفید اور مبار ک سلسلہ تھا جس کاعرصہ تین سالوں پر محیط ہے۔آخر کار بعض حاسدین کو یہ روح پرور |