Maktaba Wahhabi

94 - 96
مجالس پسند نہ آئیں اور اربابِ اقتدار تک شکایات کا سلسلہ طول پکڑ گیا یہاں تک کہ آپ کو جامعہ سے سبک دوش کر دیا گیا۔اس شنیع حرکت سے جامعہ اسلامیہ میں بہت بڑا علمی خلا پیدا ہو گیا۔ چنانچہ ان کی جگہ پر کرنے کے لیے شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد کو بطورِ مندوب پاکستان بھیجا گیاتاکہ وہ قابل ترین اساتذہ کی تلاش کر سکیں ۔کراچی میں غالباً دار الحدیث رحمانیہ میں ان کی ملاقات شیخنا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی تو ممتاز علمی قابلیت کی بنا پر اُنہیں منتخب کر لیا گیا۔پھر شیخ عبد القادر گوجرانوالہ پہنچے، جہاں سے بطورِ مدرّس حافظ محمد محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کا انتخاب کر لیا۔ اس امر کی بھی شدید کوشش کی گئی کہ مولانا محمد اسماعیل سلفی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی٭ بن جائیں اور تدریسی ذمہ داریوں کو قبول کرلیں لیکن اُنہوں نے باسلوبِ احسن پیشکش کو ٹال دیا۔ آخر کار یہ جلیل شیخین مدینہ یونیورسٹی وارد ہوئے۔ محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ تو ایک سال پورا کر کے واپس تشریف لے آئے۔ان کے تعاقب میں بھی ایک عربی اور عجمی سازش کار فرماتھی، لیکن مولانا عبدالغفار حسن نے وہاں اپنا سکہ خوب جمایا۔طلبہ ان کی علمیت کے قدردان تھے اور سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ دل کی گہرائی سے ان کی خوب عزت واحترام کرتے تھے۔ اس لیے سولہ سال کی طویل مدت آپ وہاں دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔اس دوران مجھے بھی ان کی صحبت سے مستفید ہونے کا خوب موقعہ میسر آیا، جو ربّ العزت کا عظیم احسان ہے۔ اس زمانہ میں آپ مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر خوخہ ابی بکر کی جانب، بعد از مغرب معمول کے مطابق صحیح مسلم کادرس دیا کرتے تھے۔بہت سے شائقین علم اس حلقہ میں شرکت اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ایک دفعہ دورانِ گفتگو بندۂ عاجز نے ذکر کیا کہ میرے پاس محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی تصنیف مظہر النکاۃ في شرح المشکوۃ کا کچھ حصہ قلمی شکل میں موجود ہے جو میں نے بذاتِ خود موصوف کے اصل نسخہ سے نقل کیا تھا ، وہ نسخہ آپ کی املا سے حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے دست ِمبارک سے شاندار خط میں تحریر شدہ تھا۔ اس پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شدید رغبت کا اظہار فرمایا تو میں نے وہ محفوظ تحریر پیش کر دی جو کافی دیر تک آپ کے پاس رہی۔بعد میں یہ تحریر آپ نے بصد شکریہ واپس کر دی۔
Flag Counter