مولانا کا خاص امتیاز یہ تھا کہ فخر ومباہات سے کوسوں دور ،افادہ اور استفادہ کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ میں نے ان سے علم الاسانید اورمصطلح الحدیث خوب محنت سے پڑھا جس کا کچھ حصہ میرے پاس محفوظ ہے اور اس سے بوقت ِضرورت فائدہ اٹھاتا رہتاہوں ۔ تحدیث ِنعمت کے طورپر عرض ہے کہ اپریل کے اوائل میں وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃکویت کے تحت چار سو سے زائد اہل علم نے مجھ پر صحیح بخاری کا سماع کیا،پھر ان کو إجازۃ الروایۃ سے نوازا گیا۔اب ماہ جولائی کے پہلے ہفتے پھر اسی وزارت کے تحت کویت میں صحیح مسلم کا سماع بھی ہو گا۔ان شاء اللہ اس وقت مرحوم کی صحیح مسلم کے متعلق بعض تحریریں میرے زیر مطالعہ ہیں ۔ دورانِ تعلیم ہم چند دوستوں کی عادت تھی کہ فراغت کے اوقات میں آپ کے دولت خانہ پر جمع ہوتے اور مختلف مسائل میں بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری وساری رہتا۔ہمارے پروگرام کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ ہم چند ساتھیوں نے آپ کے گھر میں غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داود کی آپ پر قرات کی بلکہ دقت ِنظر سے صاحب بذل المجہود کے اعتراضات کا جائزہ لے کر حواشی پر ان کے جوابات کو تحریر کیا گیا،یہ نسخہ آپ کی لائبریری کی زینت تھا۔ اُستاذی مرحوم کا ایک کتابچہ ’دین میں غلو‘ کے عنوان سے مطبوع ہے جو مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع اور وقیع ہے ۔امریکہ کے لمبے سفر میں اکثر میرے زیر مطالعہ رہتا۔ اس کی روشنی میں اگر کوئی مفصل کتاب لکھنا چاہے تو بآسانی تیار ہو سکتی ہے۔ مرحوم کی آل اولاد کو اللہ ربّ العزت نے عظیم علمی وراثت سے نوازا ہے جو قابل رشک کارنامہ ہے۔ان میں سب سے نمایاں ہمارے مہربان دوست ڈاکٹر صہیب حسن( لندن) ہیں جن کی دینی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ ہمارے شیخ موصوف کے بعد ان کی نیک آل اولاد اور ہزاروں تلامذہ عظیم صدقہ جاریہ ہیں ۔ ان شاء اللہ اللہم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ جنۃ الفردوس |