پانچ طلبہ کو جلالین کا درس دے رہے ہیں ، کہا کہ یہاں تم پانچ طلبہ کو پڑھاتے ہو، وہاں یعنی مدینہ میں پانچ سو طلبہ کوپڑھاؤ گے!! ہارون الرشید روایت کرتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد پاکستان سے اساتذہ کا انتخاب کرنے کے لئے پنجاب گئے تھے۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ دونوں سے اسی سلسلہ میں بات کی۔ اوّل الذکر تو آمادہ ہوگئے ، لیکن مولانا محمد اسماعیل نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ’’ میں جماعت اہل حدیث کا امیر ہوں اور میرے لئے ممکن نہیں کہ اپنی جماعتی مصروفیات چھوڑ کر رخت ِ سفر باندھوں ۔ بہتر ہوگا کہ اگر آپ مولانا عبدالغفار حسن کو وہاں جانے پر آمادہ کرلیں ۔‘‘ اور یوں ابا جان سے ملاقات کا اہتمام ہوا، ابا جان نے رحمانیہ کی انتظامیہ سے بات کی اور اُنہوں نے بلاتامل کہا کہ اگر بلاوا مدینہ منورہ سے ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں ؟ میں تعطیلات کے بعد واپس مدینہ جانے کے لئے برٹش انڈیا سٹیم کمپنی سے بحرین تک کے دو ٹکٹ بک کروا چکا تھا لیکن ابا جان جامعہ سے اپنے تَعاقُد (معاہدۂ ملازمت) کی بنا پر ہوائی جہاز کے چار ٹکٹوں کا استحقاق رکھتے تھے۔ یوں ابا جان کی معیت میں پہلا ہوائی سفر کرنے کا موقع ملا۔ مدینہ میں پہلے دو سال میں نے بورڈنگ میں گزارے تھے، اگلے دو سال ابا جان کے ساتھ ایک ہی مکان میں ہم دونوں رہتے رہے۔ ایک سال بعد والدہ اور چھوٹے بھائی بھی پہنچ گئے اور اس طرح اس گھر کی رونق بڑھتی رہی۔ میں چونکہ دو سال بعد ۱۹۶۶ء اپنی تعلیم مکمل کرچکا تھا اور پھر ۱۹۶۷ء کے آغاز میں سعودی عرب کے دارالإفتاء کی جانب سے عازمِ نیروبی (کینیا) ہوا۔ اس لئے قربت کے لمحے فاصلوں میں بدلتے گئے۔ نیروبی کے ۹ سالہ قیام کے بعد شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پرمجھے لندن بھیج دیا گیا،جہاں کی مصروفیات دراز ہوتی ہوئیں اب ۳۰ سال سے متجاوز ہوچکی ہیں ۔ ان چالیس سالوں میں میری یہ کوشش رہی کہ ہر سال کی رسمی تعطیلات والدین کے پاس گزریں ، یوں جب تک والدین مدینہ رہے، میں وہاں جاتارہا اورجب ۱۹۸۲ء میں وہ ملازمت کی قانونی مدت گزر جانے پر پاکستان منتقل ہوگئے تو پاکستان آتا رہا۔ گو اس لحاظ سے ہماری باہمی ملاقات کا دورانیہ چھوٹے بھائیوں کی نسبت مختصر رہا لیکن خط و کتابت کے تسلسل نے حالات سے آگاہ رکھا۔ ان چالیس سالوں کو تین مرحلوں میں دیکھا جاسکتاہے : |