طلبہ کی بھرتی کے لئے لائل پور گئے اور وہیں سے استعفیٰ لکھ کر مدرسہ رحمانیہ ارسال کردیا، ہمارے دوست ہارون الرشید حسّاس کی روایت ہے کہ وہ والد صاحب ہی کی وجہ سے رحمانیہ داخل ہوئے تھے۔ اس وقت تعطیلات پنجاب میں گزار رہے تھے، اُنہوں نے والد صاحب سے ملاقات کی اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی۔ یہ بھی کہا کہ ہم طلبہ تو صرف آپ کی وجہ سے کراچی گئے تھے۔ اس لئے آپ کو ہر صورت کراچی چلنا ہوگا۔ والد صاحب نے کہا کہ پھر میری بھی دو شرطیں ہیں : ایک تو یہ کہ حکیم عبدالرحیم اشرف رحمۃ اللہ علیہ خود مجھے جانے کا اِذن دیں اوردوسرے یہ کہ مدرسہ کے متولی سیٹھ عبدالوہاب خود مجھے دوبارہ آنے کے لئے کہیں ۔ ہارون الرشید کہتے ہیں کہ میں نے حکیم صاحب کواِذن دینے پر اس طرح آمادہ کیا کہ لائل پور میں آپ خود اور آپ کا ادارہ آپ کے اَفکار کو عام کررہا ہے۔ کراچی میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جو آپ کے فکر (یعنی فرقہ بندی سے بلند ہوکر اللہ کے دین کی تبلیغ کرنا) کو پھیلارہی ہو توکیایہ بہتر نہیں کہ مولانا عبدالغفار حسن کراچی میں اس کارِخیر کو انجام دیں ۔ دوسری طرف میں طلبہ کا ایک وفد لے کر سیٹھ عبدالوہاب کے پاس گیا اور اُنہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابا جان کا استعفیٰ قبول نہ کریں ۔ سیٹھ صاحب نے اس بات پربھی آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ ابا جان اور اُن پر اُن کے والدعطاء الرحمن کی شفقتوں اور تعلقات کو دیکھتے ہوئے بخوشی اُن کے گھر جائیں گے اور اُنہیں دوبارہ رحمانیہ لائیں گے، اور یوں رحمانیہ سے ایک عارضی لاتعلقی کے قلیل عرصہ کے بعد ابا جان دوبارہ رحمانیہ واپس آگئے۔ [جماعت اسلامی کے ۱۶ سال، مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی رفاقت؛متفرق واقعات] مجھے یاد ہے کہ ۲۴ ستمبر۱۹۶۴ء کو میرا اور میرے بڑے بھائی کا عقد ِنکاح تھا، ہم دونوں کی شادیاں مولانا محمد یونس قریشی دہلوی کے گھرانہ میں ہوئیں ۔ بڑے بھائی شعیب حسن کی مولانا کی بیٹی کے ساتھ اور میری اُن کی پوتی کے ساتھ۔ میں اس وقت تک مدینہ منورہ میں دو سال گزارنے کے بعد تعطیلات پرآیا ہوا تھا، اگلے روز ولیمہ تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے حدیث کے اُستاد شیخ عبدالقادرشیبۃ الحمد دعوتِ ولیمہ کی رونق کو اپنی آمد سے دوبالا کررہے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ابا جان کو مدینہ منورہ لے جانے اور اسلامی یونیورسٹی میں حدیث اورعلومِ حدیث پڑھانے پر آمادہ کررہے ہیں ، انہوں نے مدرسہ رحمانیہ کی بھی زیارت کی، دیکھا کہ ابا جان |