پہنچایا۔ الحمد ﷲ علاج معالجے کے بعد صحت یاب ہوگئے اور دوبارہ پھر اپنے کام میں جت گئے۔ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر طویل بحث و مباحثہ کا ہونا، اس کے نتیجہ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان پر سازش کرنے کااِلزام لگنا اور پھر اُن سے شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کامطالبہ کرنا، ایسے اُمور تھے جو بالآخر ابا جان کی جماعت سے علیحدگی پرمنتج ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ ابا جان مجھے ساتھ لے کر ۶ مئی ۱۹۵۷ء کو عازمِ لائل پور ہوئے، جہاں جائزہ کمیٹی کے ایک دوسرے مستعفی رکن مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عربی اور دینی علوم کی تدریس کے لئے ’جامعہ تعلیمات ِاسلامیہ‘ کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اس جامعہ کی ایک کمرے سے ابتدا ہوئی جس کا میں پہلاطالب علم تھا۔میں میٹرک کاامتحان دینے کے بعد صبح کے اوقات میں گورنمنٹ کالج لائل پور کے اساتذہ سے آرٹس کے مضامین (عربی، معاشیات اور انگریزی) میں فیض حاصل کرتا اور شام کے اوقات میں ابا جان سے عربی کی تحصیل کرتا۔ میرا ذکر تو ضمناً آگیا، مقصود تھا کہ ابا جان کیلئے ایک دفعہ پھر درس و تدریس کا میدان ہموار ہوگیا۔ لائل پور کے ساڑھے چارسالہ قیام میں ابا جان نے جامعہ سلفیہ اور پھر دارالقرآن والحدیث میں منتہی طلبہ کو بھی پڑھایا اورجامعہ تعلیماتِ اسلامیہ کے توسط سے نوجوانوں میں عربی کی تحصیل کا شوق بھی اُجاگر کیا۔ لغۃ القرآن الکریم کے نام سے ایک ماہانہ اجلاس کی داغ بیل ڈالی جس میں عربی مدارس کے طلبہ کو شمولیت کی دعوت دی جاتی۔ اُن دنوں ایک عراقی نوجوان صالح مہدی السامرائی، زرعی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، اِخوان کے سرگرم کارکن، اکثر ملاقات کے لئے آتے، ان کی موجودگی کی بنا پر ہمارا عربی اجلاس خوب پررونق ہوجاتا۔ جاپان سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد عرصہ دراز تک جامعہ الملک عبدالعزیز (جدہ) میں پڑھاتے رہے اور اب بھی سعودی عرب ہی میں مقیم ہیں ۔ جامعہ تعلیمات ِاسلامیہ سے اباجان کا رشتہ ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتا رہا۔ غالبا ً ۱۹۶۲ء میں چند ماہ ڈاکٹر اسرار احمد کے قائم کردہ ’حلقہ مطالعہ قرآن‘ (منٹگمری حالیہ ساہیوال) میں بھی بحیثیت مُربی ومدرس گزارے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے کراچی منتقل ہونے پر ابا جان نے بھی کراچی کا قصد کیا اور جیساکہ پہلے ذکر آچکا ہے، جامعہ رحمانیہ کو نئی زندگی عطا کی۔ نصاب کی اصلاح کی، انگریزی زبان کی تعلیم کو روشناس کرایا، بعض قدامت پرست اساتذہ نے مخالفت کاعلم بلند کیا۔ ابا جان |