بحالی مہاجرین کے کمشنرعطا محمد لغاری سے ملاقات کریں ۔ اباجان کہتے ہیں کہ جب ہم نے کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور اُنہیں ساری بپتا سنائی تو اس نے بجائے ہمدردی کے دوبول کہنے کے یہ کہا کہ تعجب ہے، تم لوگ کیسے بچ بچا کر آگئے!! ابا جان کے اگلے نو سال راولپنڈی، پھر لاہور، پھر سیالکوٹ اور پھر لاہور کی راہ نوردی میں گزرے۔ طے پایاتھا کہ راولپنڈی میں نوجوانوں کی تربیت کے لئے ایک اقامتی درسگاہ قائم کی جائے اور ابا جان چند دوسرے رفقا کے ساتھ نظامِ تربیت و تدریس سنبھالیں ، لیکن یہ درس گاہ اس وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی کہ طالب علم صرف تین مہیا ہوئے جبکہ اساتذہ سمیت سارا سٹاف سات افراد پر مشتمل تھا۔ اس درسگاہ کے طلبہ یہ تھے: شریف کیانی عرفان غازی رحمت الٰہی تین ماہ کے بعد، لاہور کی اقامت کے ایک مختصر دورانیے کے بعد اباجان کو سیالکوٹ کی جماعت کی امارت سونپی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قادیانیوں کی ہرزہ سرائیوں اوربعض حکومتی اہل کاروں کی طرف سے ان کی سرپرستی کے نتیجہ میں ختم نبوت کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ جلسے جلوسوں میں نہ صرف لاٹھی چارج ہوتا بلکہ آتش و آہن کی بارش بھی ہوتی۔ ہم نے اپنے گھر کی کھڑکی سے کئی ایسے جنازے دیکھے جو اس تحریک کے نتیجہ میں شہیدہونے والوں کے تھے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا ’قادیانی مسئلہ‘ لکھنا حکومت کی نظر میں ساری جماعت کے لئے عتاب کاباعث ہوگیا۔ جماعت کی قیادتِ علیا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پابند ِسلاسل کردی گئی تھی۔ ایک صبح حکومت کے گماشتے ابا جان کو بھی گھر سے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر سیالکوٹ جیل روانہ ہوگئے۔ والدہ کو ایک دن بروقت اطلاع مل گئی کہ آج اسیرانِ ختم نبوت کوگاڑی سے ملتان لے جایا جارہاہے۔ چنانچہ والدہ ہم بچوں کو لے کر اسٹیشن پہنچ گئیں ۔ لوحِ دماغ پرابا جان کی وہ جھلک اب تک مرتسم ہے کہ ڈبے میں سوار، کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے سے ہتھکڑی لگے ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنی رودادِ حیات بیان کرتے ہوئے ایک دفعہ بتایا کہ اکثرعلما اوراصحاب جبہ وقبہ قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرپائے اور معافیاں مانگ مانگ کر اپنے گھر کو سُدھارے۔ ابا جان کی اسیری گیارہ ماہ کی حدیں پھلانگ رہی تھی۔ ’سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت چھ |