کی حیثیت رکھتی ہے۔ عرب و عجم کے کئی اساتذہ اور طلبہ علم نے ابا جان سے اس اسناد کا إجازۃ حاصل کیا۔ حفیظ الرحمن اُن طلبہ میں سے ہیں جنہوں نے ابا جان سے ان کی آخری عمر میں فیض حاصل کیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ابا جان سے ملا اور اجازہ حدیث حاصل کرنے کی خواہش کااظہارکیا، کہا کہ کل فلاں وقت آنا، میں مقررہ وقت پرپہنچ گیا تو فرمایا کہ مصروف ہوں ، فلاں نماز کے بعد ملنا، میں وقت ِموعود پرموجود رہا، والد صاحب نے پھر عذر کیا اور ایک اور وقت آنے کی تاکید کی، میں سمجھ گیا کہ میرا امتحان لے رہے ہیں اور شکر ہے کہ میں اس امتحان میں پورا اُترا، غالباً چھ دفعہ کی آزمائش کے بعد بالآخر اجازہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ یہی طالب ِعلم روایت کرتے ہیں کہ ایک اور دوست فیصل آباد سے اسلام آباد آئے، حفیظ الرحمن سے ملے اورکہنے لگے کہ شیخ سے ملتے ہیں اور ’اجازہ‘ بھی وصول کرتے ہیں ، میں (یعنی حفیظ الرحمن) نے اُنہیں بتایا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال شیخ سے ملاقات ہوئی، اپنی خواہش کااظہار کیا۔ کہاکہ تم فیصل آباد سے کس کام کے لئے آئے تھے؟ جواب دیا کہ دوست سے ملنے کے لئے۔ کہا کہ جب صرف اسی غرض سے آؤ گے تو اجازہ دوں گا۔ یہ صاحب چلے گئے اور پھر تین سال ہوگئے، اُنہوں نے پلٹ کرخبر نہ لی، والد صاحب کبھی کبھار مجھ سے پوچھتے، وہ تمہارا دوست کہاں چلاگیا؟ عود علی بدء کے تحت دوبارہ رحمانیہ کے ذکر کی طرف لوٹتے ہیں ۔ رحمانیہ میں جن اساطین علم سے فیض حاصل کیا، اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں : مولانا احمداللہ شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ، مولانا عبدالرحمن نگر نہسوی، مولانا محمد سورتی، مولاناعبیداللہ رحمانی مبارکپوری اور مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہم اللہ ۔ اباجان کا یہ زمانہ عنفوانِ شباب تھا۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا، ملّی و ملکی مسائل پر نگاہ رہتی تھی، اس لئے بعض اوقات رحمانیہ کے بورڈنگ کے اوقات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کئی جلسوں میں حاضری بھی دی، جلوسوں میں شرکت بھی کی۔ مدرسہ کی انتظامیہ نے فہمائش بھی کی لیکن حسن کارکردگی کی بنا پرچشم پوشی کی۔ اباجان اُن اجتماعات کا بڑی دلچسپی سے ذکر کرتے ہیں جن میں ہندوستان کے مایہ ناز دماغ جیسے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناثناء اللہ امرتسری، |