Maktaba Wahhabi

81 - 96
پائیں جو مجھے انگریزی مصادر میں بھی نہ ملی تھیں ۔میری مراد عبداللہ ولیم قویلیم سے ہے۔ جو ’لورپول‘ انگلینڈ کے ایک صحافی اور بیرسٹر تھے اور جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ۱۸۸۹ء کے لگ بھگ اپنے اس آبائی شہرمیں مسجد قائم کرنے کا شرف حاصل کیاتھا۔ ابا جان ۱۹۱۶ء کو اس گھرانے کے لئے عام الحُزن سے تعبیر کیاکرتے تھے کہ اس سال ان کے دادا عبدالجبار عمرپوری نے ۵۷سال کی عمر میں وفات پائی۔ چند ماہ بعد والد عبدالستار حسن کا ۳۴سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ (۱۹۱۷ء کا آغاز ہوچکاتھا) اور پھر اپنے اکلوتے بھائی عبدالقہار اوراپنی والدہ اَمتہ المجیب بھی اللہ کو پیاری ہوئیں ۔ ابا جان اپنی پھوپھی اَمتہ اللہ اور دادی صا حبہ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے یتیم بھتیجے کو وہ محبت اورشفقت عطا کی جس سے وہ اپنے بچپنے ہی میں محروم ہوگئے تھے۔ [تذکرہ ددھیال اورننھیال، پردادا اور دادا کے تعلیمی اور دعوتی مراحل کابیان] ابا جان کاسن ولادت ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء ہے، پیدائش رُھتک میں ہوئی۔ حیاتِ مستعار کے آخری دو سالوں میں یادداشت متاثر ہوچکی تھی، اس لئے جب میں نے جائے پیدائش کے بارے میں پوچھا تو ’دہلی‘ کا نام لیا لیکن پاسپورٹ اور دیگر وثیقہ جات میں رُھتک ہی ذکر ہے۔ دہلی کے مدرسہ ’نور الہدیٰ‘ کشن گنج میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پردادا عبدالجبار نے اُسے ’حسن گنج‘ کانام دیا اور اسی مناسبت سے بیٹے کو بھی حسن کا لاحقہ عطا ہوا یعنی ’عبدالستار حسن‘ لیکن درسِ نظامی کا پورامرحلہ دارالحدیث رحمانیہ، دہلی میں طے کیا جو کہ دہلی کے ایک مخیر تاجر عطاء الرحمن نے قائم کیاتھا اور یہ مدرسہ اپنی پختہ عمارت، حسن نظامت، جودتِ تعلیم اور عربی کو بحیثیت ِزبان متعارف کرانے میں ہندوستان کے عربی مدارس میں ایک ممتاز مقام رکھتاتھا۔ ابا جان ذکر کرتے تھے کہ یہ رحمانیہ کی عربی تعلیم ہی کاثمر تھاکہ ابا جان ایک عجمی ہوتے ہوئے بھی مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی میں اٹھارہ سال تعلیم دیتے رہے اور عجمیت اس تسلسل میں قطعاً آڑے نہ آئی۔ مدرسہ رحمانیہ نے جہاں ابا جان کوعربی زبان کا سلیقہ عطا کیا، وہاں شیخ احمداللہ پرتاب گڑھی (جو مولانا محمدیونس قریشی دہلوی کے ماموں تھے) کے توسط سے علم حدیث کی وہ اسناد عطاکی جو ۲۳ واسطوں سے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اور جو عصر حاضر میں ایک نایاب گوہر
Flag Counter