Maktaba Wahhabi

83 - 96
مولانامحمد ابراہیم میرسیالکوٹی رحمہم اللہ شرکت کیا کرتے تھے۔ اَحراری اورلیگی چپقلش کو بھی دیکھا اور لیگی و کانگرسی رقابت کو بھی۔ رحمانیہ کے تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دادپائی۔ ابا جان، مدرسہ کے مہتمم سیٹھ عطاء الرحمن کاذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں ۔ اُن سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیاتھا، جومدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے تک قائم رہا، پھر حاسدوں کی پٹی پڑھانے سے اورکچھ اپنی غفلت کی بناپر اس تعلق میں فتور پیداہوگیا، پھر بھی وہ ابا جان کے نکاح کے بعدتقریب ِولیمہ میں شریک ہوئے اور اپنی طرف سے بھی ولیمہ کاانعقادکیا۔ یہی وہ گہرا تعلق تھا جو فراغت کے۲۶ سال بعد کراچی کے مدرسہ سعودیہ (سفید مسجد) سولجر بازار کو دوبارہ دار الحدیث رحمانیہ کا روپ دھارنے پرآمادہ کرسکا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب اباجان ۱۹۶۳ء میں پنجاب سے کراچی تشریف لائے اور مدرسہ مذکورہ میں مسند ِحدیث سنبھالی تو اُنہوں نے جہاں مدرسہ کے نصاب میں کئی تبدیلیاں روشناس کرائیں ، وہاں مدرسہ کے موجودہ متولی سیٹھ عبدالوہاب (ابن شیخ عطا الرحمن ) کے سامنے یہ تجویز بھی پیش کی کہ تقسیم کے وقت دہلی کا مدرسہ رحمانیہ اپنی رونقیں کھو چکا تھا، خود مؤسس مدرسہ کا خاندان پاکستان ہجرت کرچکاتھا اور بعد ازاں مدرسہ کی عمارت میں شفیق میموریل سکول کی طرح ڈالی جاچکی تھی، اس لئے بہتر ہوگا کہ سفید مسجد کے اس مدرسہ کو از سر نو مدرسہ رحمانیہ کا نام دیا جائے، چنانچہ سیٹھ عبدالوہاب مرحوم اور ان کی انتظامیہ نے اس تجویز پر صاد کیا اور یوں مدرسہ رحمانیہ دہلی کے احیا کاراستہ کھل گیا۔ [مدرسہ رحمانیہ کے آٹھ سال، تعلیمی سرگرمیاں ، نصاب اور طریقہ امتحان، غیر تعلیمی سرگرمیاں ، جریدہ ’محدث‘ سے وابستگی، اساتذہ کا تذکرہ] اباجان ۱۹۳۳ء میں جامعہ رحمانیہ سے فارغ ہوئے ۔ ۱۹۳۶ء میں بنارس کارُخ کیا، جہاں مدرسہ سلفیہ اگلے چھ سال کے لئے اُن کی آماجگاہ رہا۔ یہی سلفیہ بعدمیں ترقی کے مدارج طے کرتاہوا جامعہ سلفیہ کارُوپ دھارتا گیا اور اس جامعہ کے فارغین اپنے تبحر علمی اور عربی دانی کی بنا پر عرب دنیا میں بھی اپنا لوہا منواتے گئے۔ اس مدرسہ میں والد صاحب کو صحاحِ ستہ جم کر پڑھانے کا موقع ملا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک منتہی طالب ِعلم تدریس کے مرحلہ سے گزر کر ہی مسِ خام سے کندن بنتا ہے۔ یوں تو اُنہیں اس باب میں خراجِ عقیدت دینے والے
Flag Counter