پرایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے کے شرکا میں غامدی صاحب اور تین خواتین: سمیعہ راحیل قاضی، مونا اسلم اور ایک دانشور غزالہ نثار شامل تھیں ۔ اس مذاکرے میں غامدی صاحب نے پردے کے بارے میں یہ موقف اختیا رکیا تھا کہ ﴿یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذَلِکَ أدْنٰی أنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُوْذَیْنَ﴾ (الاحزاب :۵۹) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں او رمسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اس فرمان الٰہی میں موجود شرعی حکم ایک عارضی او رہنگامی حکم تھا اور منافقین اور یہود کی طرف سے مسلم خواتین کو چھیڑ چھاڑ اور ایذا رسانی سے بچانے کی ایک وقتی تدبیر تھی۔ اس آیت کا عورت کے پردے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آج یہ حکم باقی نہیں ہے۔ (اس مذاکرے کی سی ڈی ’اسلام میں پردہ‘ کے عنوان سے موجود ہے) یاد رہے کہ غامدی صاحب اس سے پہلے مرتد کے لئے قتل کی سزا، کافر اور مسلمان کی وراثت اور کفار سے جہاد وغیرہ کو بھی وقتی او رہنگامی احکام قرار دے چکے ہیں اور آج کے دور میں مرتد کے لئے قتل کی سزا اور آج کفار سے جہاد کرنے کے شرعی احکام کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح شریعت کے بیشتر احکام غامدی صاحب کی اس ایک ہی ’لاٹھی‘ اور’فارمولے‘ کی زد میں آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ اللہ اللہ خیر سلا!! لیکن ہم اُن کو اُن کے ’استاد امام‘ مولانا امین احسن اصلاحی کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں ۔ وہ سورہ احزاب کی آیت ۵۹ کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں : ’’اس ٹکڑے ﴿ذَلِکَ أدْنٰی أنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُوْذَیْنَ﴾ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کرسکتا ہے |