کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔‘‘ (تدبرقرآن: جلد۶/ ص۲۷۰) نیز اسی آیت (الاحزاب :۵۹) کی تفسیر میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی ’جلباب‘ ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بڑی بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآنِ مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔‘‘ (تدبرقرآن: جلد۶/ ص۲۶۹) غامدی صاحب کے نزدیک اُمت ِمسلمہ کے تمام علماے کرام تو ’خاک‘ کے مرتبہ میں ہیں اور پوری اُمت میں سے صرف ان کے ممدوح دو ’علما‘ ہیں جن کو وہ ’آسمان‘ کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ غامدی صاحب اپنی کتاب’مقامات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے ، بہتوں کوپڑھا اور بہتوں کو سُنا ہے، لیکن امین احسن اور ان کے اُستاد حمیدالدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ غالب نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسماں سے کیا نسبت‘‘ (’مقامات‘ ص۵۷،۵۸، مطبوعہ دسمبر ۲۰۰۱ء، لاہور) لیکن عورت کے چہرے کے پردے کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب کا موقف نہ صرف قرآنِ مجید اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے، بلکہ اُن کے اپنے ’استاد امام‘ کے موقف کے بھی خلاف ہے۔ ٭ اطلاع : دسمبر ۲۰۰۶ء اور مارچ ۲۰۰۷ء میں جن قارئین کرام کو زرِسالانہ کی تجدید کا نوٹس بھیجا گیا ہے وہ اوّلین فرصت میں ادائیگی فرما دیں ۔ بالخصوص وہ قارئین جنہوں نے دسمبر ۲۰۰۵ء کے بعد سے زرِ سالانہ جمع نہیں کرایا، ایک ماہ تک ادائیگی نہ ہونے پر اُنہیں محدث کی ترسیل بند کردی جائے گی۔ محمد اصغر (منیجر ’محدث‘) |