مرکز چہرے کو چھپانے کا کوئی حکم نہ دیا جائے۔ البتہ ہنگامی اور جنگی صورتِ حال میں یا حج اور عمرہ کے مناسک اداکرتے وقت، علاج معالجے کی صورت میں اور زیادہ بوڑھی عورت کے لئے چہرے کے پردے میں رخصت دی گئی ہے، مگر اصل حکم جو عام ہے او رسب کے لئے ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے اسی کا حکم دیا ہے۔ پردے کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف اور اس پر ہمارا تبصرہ عورت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید غامدی صاحب کا موقف ’ارتقا پذیری‘ کا شکار رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں : 1. دوپٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے اور اُنہیں کن حدود کا پابند رہ کر زندگی بسر کرنی چاہئے۔ دوپٹا ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ۔ البتہ اسے ایک تہذیبی شعار کے طور پر ضرور پیش کرنا چاہئے۔ اصل چیز سینہ ڈھانپنا اور زیب و زینت کی نمائش نہ کرنا ہے۔ یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہوجائے تو کافی ہے، اس کے لئے دوپٹہ ہی ضروری نہیں ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق :مئی ۲۰۰۲ء ،ص۴۷) اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمان عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی کا استعمال کوئی شرعی حکم نہیں ہے، بس ایک تہذیبی شعار اور رسم و رواج ہے،جبکہ دوسری طرف قرآن مجید کی نص قطعی اور واضح حکم ہے کہ ﴿وَلْیَضْرِبْنَ بُخُمُرِھِنَّ عَلی جُیُوْبِھِنَّ… ﴾ (النور :۲۷) ’’ اورچاہئے کہ عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں (دوپٹے) ڈالے رہیں ۔‘‘ غالبا ًغامدی صاحب کے ہاں قرآن سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہوگا۔ 2. مارچ ۲۰۰۷ء میں ’جیو‘ ٹی وی کے پروگرام ’غامدی نامہ‘ میں اسلام اور پردہ کے موضوع |