Maktaba Wahhabi

76 - 96
10. مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے اس آیت کے تحت اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن : ج۴/ ص۱۳۱) 11. مولانا امین احسن اصلاحی (جاوید غامدی صاحب کے ’استاد امام‘) اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور اُنہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو آج بھی دیہات میں شریف بوڑھی عورتیں لیتی ہیں جس نے بڑھ کر برقع کی شکل اختیار کرلی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن:ج۶/ص۲۶۹) حضرات مفسرین نے سورۂ احزاب کی اسی زیر بحث آیت ۵۹میں چہرے کے پردے کا حکم سمجھا ہے اور چہرے کا یہ پردہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے پیش نظر زنا اور زنا کے مقدمات و محرکات کی پیش بندی اور روک تھام ہے۔ ورنہ حقیقت ہر شخص پر عیاں ہے کہ ایک جوان عورت کا چہرہ ہی سب سے زیادہ جاذبِ نگاہ اور صنفی محرک ہوتا ہے، بالخصوصی جب اسے غازہ و رنگ سے بھی خوب مزین کردیا جائے۔ فقط چہرہ دیکھ لینے ہی سے عورت کے حسن و جمال کا اندازہ کرلیا جاتا ہے اور بغیر چہرہ دیکھے اس کے حسن و جمال کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اسلام محرکاتِ زنا کو ایک ایک کرکے ان کی مخالفت کرتاہے۔ جو نامحرم عورت کو دیکھنے پر پابندی لگاتا ہے اور غض بصر کا حکم دیتا ہے۔ جو مرد اور عورت کو تنہائی میں یکجا ہونے سے روکتا ہے۔ جو عورت کو کسی غیر مرد سے بات کرتے وقت لگاوٹ کا لہجہ اختیا رکرنے سے منع کرتا ہے۔ جو اس کی آواز کا پردہ چاہتا ہے کہ عورت نماز میں امام کو اس کی غلطی پر ٹوکنے کے لئے ’سبحان اللہ‘ تک نہ کہے۔ عورت اپنی کوئی زینت بھی غیر مرد کو نہ دکھائے۔ وہ اسلام یہ کیسے چاہے گا کہ چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے، اور نسوانی حسن و جمال کے
Flag Counter