1. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسے حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس طرح نقل کیا ہے کہ أمراللّٰه نساء المؤمنین إذا خرجن من بیوتھن في حاجۃ أن یغطین وجوھھن من فوق رؤسھن بالجلابیب ویبدین عینا واحدۃ ’’اللہ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپالیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔‘‘ 2. ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔( یہ حضرت عبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہوچکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہوسکے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اُنہیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ کے ہم پلہ مانا جاتا تھا۔)اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھاکہ پورا سر او رپیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ 3. امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر جامع البیان (ج۲۲/۳۳) پر اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ ’’شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھر سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ اُنہیں چاہئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔‘‘ 4. امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ فأمر اللّٰه الحرائر بالتجلبب۔ ۔ ۔المراد یعرفن أنھن لا یزنین لأن من تستر وجھھا مع أنہ لیس بعورۃ لا یطمع فیھا أنھا تکشف عورتھا فیعرفن أنھن مستورات لایمکن طلب الزنا منہن ’’اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پرراضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، ان سے زنا کی |