Maktaba Wahhabi

68 - 96
فتویٰ کی اتھارٹی فتواے کفر پر اپنے ردّعمل ہی کے سلسلہ میں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے علماے کرام کے خلاف یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ’’ان حضرات (یا کسی اور) کو یہ اتھارٹی کہاں سے مل جاتی ہے کہ وہ کسی کے کفر اوراسلام کا فیصلہ کردیں ؟ علما کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے کسی مذہبی مدرسہ سے کچھ کتابیں پڑھی ہیں ، تو کیا ان کتابوں کے پڑھ لینے سے کسی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ جسے چاہیں کافر قرار دے دیں ۔‘‘ لیکن معلوم نہیں کہ ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کو کسی مذہبی مدرسہ سے کچھ کتابیں پڑھے بغیر ہی یہ اَتھارٹی کہاں سے مل گئی کہ وہ علماے کرام پر ’منکرین قرآن‘ ہونے کا فتویٰ رسید کریں اور ان کے مبنی برقرآن و سنت دین کو دورِ نزول قرآن سے قبل اہل کتاب کا مذہب قرار دیں ، اور کراچی کی سابقہ بزمِ طلوعِ اسلام کے ان اراکین پر ’منافق‘ ہونے کا فتویٰ عائد کریں جن کومیزان پبلی کیشنز کے پھڈے میں اس دن بزمِ طلوعِ اسلام سے دربدر اور جلاوطن کردیا گیاتھا جسے طلوعِ اسلام کی تاریخ میں خود ’مفکر قرآن‘ صاحب نے ’یوم الفرقان‘ قرار دے رکھا ہے۔ کیا اُنہوں نے میاں عبدالخالق اور حافظ برکت اللہ وغیرہ کے سینوں کو چاک کرکے یہ دیکھ لیا تھا کہ وہاں نفاق ہی نفاق پایا جاتاتھا؟ یا اپنے ہم نام مرزا غلام احمد آنجہانی، متنبّی دورِ حاضر کی طرح اُنہیں بھی وحی پانے کا دعویٰ ہے؟ اگر یہ دونوں باتیں ہیں تو پھر کیا وہ ’مزاج شناس خدا‘ تھے جس کی بنا پر ’منافقین قرآن‘ کے باطن ان پرروشن اور بے نقاب ہوچکے تھے؟ فتویٰ اور حکومتی ذمہ داری علماے کرام کی طرف سے جاری ہونے والے فتویٰ پر ’مفکر ِقرآن‘ کا تیسرا ردّعمل مندرجہ ذیل الفاظ میں مذکور ہے : ’’باقی رہے مفتی، سو اِسلامی سلطنت میں یہ ایک منصب تھا جس پر کوئی شخص، حکومت کی طرف سے تعینات ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی مفتی نہیں ہوتا تھا۔ جس طرح آج کل ایڈووکیٹ
Flag Counter