کے ’منصب ِرسالت نمبر‘ پرمشتمل تھی۔ ’مفکر ِقرآن‘ کا ردّعمل جناب پرویز صاحب کا پہلا ردّعمل یہ تھا کہ جن عبارتوں پر فتواے کفر کی اساس تھی، ان کے علاوہ اُنہوں نے کچھ ایسی اپنی عبارتیں پیش کیں جن پر اُن کے بقول فتویٰ عائد نہیں ہوتا اور اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مفتیانِ کرام نے جملہ عبارات کو پیش نظر رکھ کر دیانتداری سے فتویٰ نہیں دیا جبکہ اصل حقیقت اس عذرِلنگ کی یہ ہے کہ’مفکر قرآن‘ صاحب کا پورا لٹریچر مداری کی ایسی پٹاری ہے جس میں تضادات کا وافر ذخیرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور ’مفکر قرآن‘ صاحب جس وقت جس چیز کو مفید مطلب پاتے ہیں ، پیش کردیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ مفتی صاحب کو پرویز صاحب نے جو خط لکھا اس میں یہ شکایت کی تھی کہ ’’میری تحریروں میں سے ایک ایک، آدھ آدھ فقرہ، اِدھر اُدھر سے اَخذ کرلیا گیا ہے اور اُنہیں مکمل اقتباسات کہہ کر پیش کردیا گیا ہے۔ پھر ان منتشر ٹکڑوں سے جو مفہوم مرتب کیا گیا ہے، وہ بے حد غلط اور گمراہ کن ہے۔‘‘ مفتی صاحب نے اسے علماے کرام پربہتان قرار دیا اور مزید یہ لکھا کہ ’’آپ نے پھر خلط ِمبحث کی سعئ لاحاصل شروع کردی، اور ایک طویل مراسلہ لکھ مارا، جس کا زیادہ سے زیادہ حاصل یہ ہے کہ آپ نے اپنی ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی تصانیف میں ، متعدد جگہ ذاتِ باری تعالیٰ کے متعلق صحیح تصور بھی پیش کیا ہے۔ معلوم نہیں اس کی ضرورت آپ کو کیوں لاحق ہوئی، اس لئے کہ علما نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ساری عمر میں آپ نے اپنی تحریروں میں کوئی بات یا کوئی عبارت صحیح لکھی ہی نہیں ۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر سو جگہ، ایک شخص بالکل صحیح بات کہے اور دس بیس جگہ بالکل غلط اور کافرانہ عقائد کااظہار کرے تو کیا محض یہ امر کہ اس نے متعدد مرتبہ صحیح بات کہی تھی، اس کو غلط تصورات رکھنے یا شائع کرنے کی ذمہ داری سے بری قرار دے دے گا؟ آخر مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی تو متعدد جگہ اپنے آپ کو غیر نبی ہی قرار دیا ہے، صرف چند ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اُس نے نبوت کا دعویٰ پیش کیا ہے۔‘‘ |