دین میں حجت کے طور پر وہ پیش نہیں کی جاسکتی ۔‘‘ اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان لوگوں کو ’منکر ِحدیث یا منکر سنت‘ کہنا ہر گز لیبل سازی نہیں ہے، لیکن علما پر لیبل سازی کا الزام، بہ تکرارِ بسیار صرف اس لئے دہرایا جاتا ہے کہ مُـلَّا اور ملائیت کے جو لیبل وہ خود تراش چکے ہیں ، ان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول نہ ہوسکے۔ علما کے خلاف فتواے پرویز لیکن ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب اس سے آگے بڑھ کر خود ایک لیبل، بصورتِ فتویٰ تراشتے ہیں اور علماے کرام کو ’قرآن سے جاہل‘ ہی نہیں بلکہ ’منکر ِقرآن‘ بھی قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ صرف اپنی فکر ہی کو قرآنی فکر قرار دیتے ہوئے اپنے مخالف علما کے متعلق یہ لکھتے ہیں : ’’لیکن اس آواز کی مخالفت تمام منکرین قرآن کی طرف سے ہوگی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مختلف فرقوں کے وہ علما، جو کل تک ناف پر یا چھاتی پر ہاتھ باندھنے کے اختلاف پر، باہمدگر دست و گریباں ہوا کرتے تھے، قرآن کی اس آواز کے خلاف متحدہ محاذ بناکر کھڑے ہوگئے ہیں ۔‘‘ اور یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ کی آڑ میں ، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر بطور خاص ’منکر ِقرآن‘ ہونے کا فتویٰ بایں الفاظ رسید کیا: ’’طلوعِ اسلام نے اپنی سابقہ اشاعت میں قرآنی دلائل سے یہ ثابت کیا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی وراثت سے محروم نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں منکرین قرآن کی طرف سے جو جواب شائع ہوا ہے، وہ ملاحظہ فرمائیے۔ م چونکہ اس کے بعد جس جواب کو مقتبس کیا گیا ہے، وہ مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کا جواب ہے، اس لئے یہ فتویٰ یا لیبل اُن ہی پر چپکایا گیا ہے۔ چنانچہ پرویز صاحب علماے کرام کے دین اسلام کو (جو قرآن و سنت پر مبنی ہے) زمانۂ قبل از نزولِ قرآن کے اہل کتاب کا مذہب قرا ر دیا کرتے تھے، یا اسے ایرانیوں کا تراشیدہ ’عجمی اسلام‘ کہا کرتے تھے اور خود ان علما کو اپنے ’قرآنی فتویٰ‘کی روشنی میں ’منکر قرآن‘ قرار دیا کرتے تھے، اس لئے وہ ان سے ایسا اندازِ |