2. ’کرو خود، مگر الزام دوسروں پر لگاؤ‘ ثانیاً یہ کہ اپنے مخالفین کے لئے لیبل تراش کر اس کے تحت اِنہیں مطعون کرنا خود ’مفکر قرآن‘ (اور منکرین حدیث) کی وہ قبیح حرکت ہے جسے بہتاناً وہ اپنے فکری حریفوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ ’کرو خود، مگر الزام دوسروں پر لگاؤ‘ کا رویہ اپنانا، ’مفکر ِقرآن‘کی ایک مستمر پالیسی تھی* تاکہ ان کی اپنی ایسی عادت چھپی رہے اور لوگوں کی توجہ اس شخص کی طرف مبذول ہوجائے جس کی طرف وہ اُسے منسوب کردیا کرتے تھے۔ اب یہاں یہ ملاحظہ فرمائیے کہ لیبل تراشی کی جو حرکت وہ خود علماے کرام کے خلاف کررہے ہیں ، ٹھیک اسی حرکت کا مرتکب وہ زعماے دین کو قرار دیتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں: ’’مُـلَّا کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں ،نہ براہین۔ لیکن اس کے پاس ایک خطرناک حربہ ہوتا ہے جس کا جواب فریق مخالف کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ یہ حربہ ہوتا ہے کفر کا فتویٰ یا لیبل۔ وہ دلائل کی بجائے ایک لیبل تراشتا ہے اور فریق مقابل پر چسپاں کردیتا ہے۔‘‘ چنانچہ علماے کرام نے جو لیبل تراشا اور (بقولِ پرویز) اُن پر چسپاں کیا، وہ ہے :منکر سنت اور منکر حدیث ہونے کا لیبل : ’’یہ حضرات طلوعِ اسلام کے پیش کردہ قرآنی دلائل کا جواب تو دے نہیں سکتے، اس لئے اُنہوں نے اس کے خلاف وہی حربہ استعمال کیا ہے جسے یہ اپنے مخالفین کے لئے شروع سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اُنہوں نے مشہور کردیا کہ طلوعِ اسلام، منکر حدیث ہے اور اس طرح عوام کے جذبات کو اس کے خلاف مشتعل کردیا۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ ’مفکر ِقرآن‘ کو منکر ِحدیث یا منکر ِسنت کہنا، نہ کوئی لیبل تراشی ہے اور نہ الزام بازی، نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی گالی، بلکہ یہ صرف امر واقعہ کا اظہار ہے، کیونکہ یہ لوگ خود حجیت ِحدیث کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں : ’’حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے۔ اس سے تاریخی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں ، لیکن |