مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ا وران کی جماعت پر ’ملا‘ کا لیبل لگادینے کے بعد ’مفکر قرآن‘ صاحب، جماعت اسلامی سے وابستہ افراد اور ان کے اندازِ تحریر اور اُسلوبِ نگارش کو بایں الفاظ نشانہ بناتے ہیں : ’’ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اگرچہ تعلیم یافتہ کہلاتا ہے،لیکن ابتدائی تعلیم وتربیت او رماحول کے اثرات اور اپنی فکری صلاحیتوں کے فقدان کے باعث مذہب کے معاملہ میں بالکل عوام جیسا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کا ظاہر ماڈرن ہے، لیکن باطن، اسی دقیانوسی ملائیت کا حامل ۔ ۔ ۔ یہ جماعت، دقیانوسی ملائیت کی پیکر ہے لیکن اُنہوں نے اُسلوبِ نگارش ماڈرن رنگ کا اختیار کررکھا ہے۔ چنانچہ یہ طریق پرانے مولویانہ طریق سے مختلف ہے۔ اس لئے یہ لوگ محض اُسلوبِ بیاں اور طریق استدلال کے فرق کی بنا پر یہ خیال (Impression)عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا پیش کردہ مذہب ملائیت سے مختلف ہے۔اس سے وہ تعلیم یافتہ طبقہ یعنی سوٹ پہننے والاملا ان کا ہم نوا ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے ان کی ظاہری ماڈرنز م بھی قائم رہ جاتی ہے اور قلبی ملائیت کی بھی تسکین ہوجاتی ہے۔‘‘ اس سے دو باتیں بالکل واضح ہیں : 1. جاہلی عصبیت اوّلاً __ یہ کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب کے نزدیک مُـلَّا ہر وہ شخص ہے جو ان کے فکر کو قبول نہیں کرتا، قطع نظر اس کے کہ وہ جدید تعلیم یافتہ ہے یا نہیں ۔ وہ اپنی فکر سے بیگانہ افراد کو خواہ ان کا اُسلوبِ تحریر جدید انداز کا ہو یا قدیم، اس خود ساختہ لیبل کا مستحق گردانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر اس شخص کو جو اُن کا فکر نہیں اپناتا، اُنہیں اس لیبل کے تحت تضحیک و استہزا اور توہین کا نشانہ بنایا جائے۔ اس کے برعکس ہر وہ شخص مُـلَّا نہیں ہے جو قرآن کے نام پر ان کے خود ساختہ دین کو قبول کئے ہوئے ہے۔ خواہ وہ جدید تعلیم پائے ہو یا قدیم۔ یہ وہی ٹریڈ یونین ازم ہے جس کے تحت وہ قرآن کے نام کی آڑ میں جاہلانہ عصبیت کا شکار ہیں اور اپنے گروہ سے باہر ہر فرد کو مُـلَّا گردانتے ہوئے کشتنی و سوختنی قرار دیتے ہیں ۔ |