ذہنیتوں میں یکسر انقلاب پیدا کردینا اور وقت کی مناسبت سے جملہ مشکلات کا حل قرآنِ کریم سے پیش کرنا وغیرہ،وہ خصوصیات ہیں جو بحمدﷲ رسالہ ’ترجمان القرآن‘ کو حاصل ہیں ۔ ہندوستان میں آج کل سیاست کے نام سے جو گمراہی پھیلائی جارہی ہے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اس سے غافل نہیں ہیں او رکتاب وسنت کی روشنی میں مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی بھی فرما رہے ہیں ۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اپنی وسعت ِمطالعہ کے لحاظ سے جدید و قدیم پرحاوی تھی۔ ان ہی خوبیوں او رکمالات کے باعث وہ ایک ایسی نمایاں اور قدآور ہستی تھے جو اُنہیں ممتاز و ممیز کئے ہوئے تھی۔ ان فضائل و کمالات کا پاکستان بننے سے قبل پرویز صاحب کو بھی اعتراف تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب اُنہوں نے نیا اسلام وضع کیا اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے اس نوساختہ اسلام کے انکار کا جرم سرزد ہوا تو ’مفکر ِقرآن‘ ان کے شرف و امتیاز کو خاک میں ملانے کے لئے یہ کہنے لگے : ’’حقیقت یہ ہے کہ مولوی نہ کسی شخص کا خطاب ہے او رنہ کسی زمانہ سے مختص۔یہ ایک ذہنیت ہے۔ پرانا مولوی جو کچھ کہے گا اور کرے گا، ماڈرن مولوی اس سے بہتر مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ البتہ اس کے ہاں انگریزی کے بعض الفاظ کا استعمال ہوگا۔‘‘ ’’بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ ذہنیت جس کا اوپر ذکر کیا گیاہے، پرانی وضع کے ملاؤں کی ہے،نئے دور کے’علماے کرام‘اس قسم کے نہیں ہیں ،لیکن قدیم و جدید کی یہ تمیز محض ان کی خوش فہمی ہے۔مُـلَّا مُـلَّا ہی رہتاہے،خواہ وہ دورِ قدیم کا ہو یا عصر جدید کا۔اصل چیز وہ قوت ہے جو مذہب کے نام سے اُسے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ اور یہ ’ماڈرن مولوی‘ اور مُـلَّا کا لقب تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت تھا، اب ان کی جماعت (جماعت اسلامی) کے متعلق بھی ان کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیے : ’’ان (حکمرانوں ) میں ایسے تھے جو جانتے تھے کہ صحیح اسلام کیا ہے؟ لیکن وہ ملاکے پراپیگنڈے سے ڈرتے تھے، اس لئے اسے کھلے بندوں ، زبان پر یا عمل میں لانے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔مُـلَّا سے اس ضمن میں بنیادی طور پر مرادجماعت اسلامی ہے۔‘‘ |