علمبرداروں کوکچل ڈالنے کے لئے اپنے جملہ ذرائع و وسائل جھونک دیتیں اور دنیا کا ہر باطل اقتدار اس کا گلا گھونٹ دینے سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوتا لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ باطل اقتدار اور طاغوتی طاقتیں اس ’قرآنی دعوت‘ کو اپنے استحکام کا ذریعہ جانتے ہوئے درپردہ اس کی حمایت پر کمربستہ ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عالم اسلام کے علما اس ’خالص قرآنی دعوت‘ کے علمبردار پر کفر کے فتوے عائد کررہے ہیں اور خالص کفر کے علمبردار نہ صرف یہ کہ ’مفکر ِقرآن‘ کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے اُنہیں خراجِ تہنیت اور گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہیں بلکہ وہ ایسی کتابیں بھی لکھ رہے ہیں جو اس ’خالص قرآنی دعوت‘ کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک متعارف کرانے کا موجب بن چکی ہیں ۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: ’جناب غلام احمد پرویز، اپنے الفاظ کے آئینے میں ‘) بہرحال علماے کرام نے وقار و متانت، شائستگی و سنجیدگی اور دلیل و برہان کے ساتھ پرویز صاحب کی مخالفت کی لیکن خود اُنہوں نے جوابی مخالفت میں جو اسلحہ استعمال کئے، وہ سب وشتم، دشنام طرازیوں ، افترا پردازیوں ، تہمت تراشیوں ، بہتان طرازیوں اور کذب بیانیوں کے اسلحہ تھے جس پر میری متذکرہ بالا کتاب کا ایک ایک لفظ شاہد ہے۔ مخالفت ِ علما میں پرویزی حیلے چونکہ ’مفکر قرآن‘ کا تصورِ اسلام علماے کرام کے تصورِ اسلام سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد بھی تھا، اس لئے اُنہوں نے علماے کرام کی مخالفت کے لئے ایک ایسی ٹیکنیک اختیار کی جس کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ علما حضرات کو خوب کثرت سے نشانہ بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے اُنہوں نے مُلا کا لیبل تراشا اور سارے جہاں کی نفرتوں کو اسی لفظ میں سمیٹتے ہوئے ہر اس عالم دین پر اس لیبل کو چپکا دیا جو قرآن و سنت کا داعی تھا۔ پرویزی مخالفت ِعلما کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن وسنت پر مبنی اسلام کو اُس معیار پر پرکھا جائے جو تہذیب ِمغرب نے اس کے لئے طے کررکھا ہے اور ساتھ ہی حدیث وسنت کو بھی نشانہ بناکر اسے مشکوک قرار دیتے ہوئے ساقط الاعتبار ٹھہرایا جائے۔ |