Maktaba Wahhabi

59 - 96
صرف علما ہی نعل در آتش کیوں ؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ’خالص قرآنی دعوت‘ سے صرف ’عصا بردارانِ شریعت‘ ہی کیوں نعل در آتش ہیں ؟ محض واعظانِ محراب و منبر ہی کیوں سیخ پا ہیں ؟ فقط ’عباؤں اور قباؤں پر مشتمل مجمع‘ہی کیوں لٹھ لئے پھر رہا ہے؟تنہا ’مذہبی اجارہ دار‘ ہی کیوں ’عتاب نازل کرنے‘ پر اُتر آئے؟ آخر یہ کیسی ’قرآنی دعوت‘ ہے جس پر اربابِ اقتدار کو نہ صرف یہ کہ کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے بلکہ وہ اس پر راضی بھی ہیں ۔ قرآن کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جب بھی آواز ۂ قرآن اُٹھا، اس کی سب سے پہلی مخالفت ’اربابِ اقتدار‘ ہی کی طرف سے ہوئی۔ طاغوت کو اس میں اپنی موت نظر آئی۔ نمرودیت نے اس آواز کوکچل ڈالنے کی ٹھانی۔ فرعونیت اسی آواز پر لرزہ براندام ہوئی۔ لیکن یہ کیسی ’خالص قرآنی دعوت‘ ہے جس کو وقت کی طاغوتی طاقتیں ٹھنڈے پیٹوں گوارا کررہی ہیں ۔ عصرحاضر کے فراعنہ نہ صرف یہ کہ اس دعوت سے خائف نہیں ہیں بلکہ اس سے راضی بھی ہیں ۔ نماردۂ عصر رواں اس کو سنتے ہیں اور اپنے دلوں میں اس کے خلاف کسی ادنیٰ سی چبھن، ہلکی سی خلش، خفیف سی تشویش اور معمولی سا اضطراب تک بھی محسوس نہیں کرتے بلکہ دامے، درمے، قدمے، سخنے، درپردہ اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ’خالص قرآنی دعوت‘ دینے والوں پر نہ کبھی زمین تنگ ہوئی، نہ اُنہیں اس دعوت کی خاطر ترکِ وطن کرنا پڑا۔ نہ اُن کے راستے میں کبھی شعب ِابی طالب کی گھاٹی آئی، نہ کبھی پیروانِ ’دعوتِ قرآنی‘ کو قید و بند کے مصائب کاشکار ہونا پڑا۔ نہ کبھی پھانسی کی رسی ان کی گردن تک پہنچی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ’خالص قرآنی دعوت‘ اپنے علمبردار ’مفکر قرآن‘ کو نظامِ باطل کی چاکری اور خدمت ِطاغوت کے ذریعہ ’رزقِ حلال‘ کا بھی درس دیتی رہی ہے۔ یہ صورتِ حال اس امر کو واضح کرڈالتی ہے کہ حقیقت وہ نہیں جسے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگر واقعی یہ ’خالص قرآنی دعوت‘ ہوتی تو اَسود و اَحمر، اسے مٹا ڈالنے پر تُل جاتے۔ فرعون و نمرود اپنے لاؤ لشکروں کے ساتھ اس کا تعاقب کرتے۔ طاغوتی طاقتیں اس ’دعوتِ حق‘ اور اس کے
Flag Counter