Maktaba Wahhabi

58 - 96
نوبت آئی تو ’دو اسلام‘ آمنے سامنے آگئے۔ ایک وہ جو قرآن و سنت پر مبنی تھا اور جو چودہ صدیوں سے سلف تا خلف تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا۔ اس اسلام کو ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے اس ’عجمی سازش‘ کا نتیجہ قرار دیا جو (بزعم پرویز صاحب) صدیوں پہلے اس وقت واقع ہوئی تھی، جب نہ ہم ہی موجود تھے او رنہ ہی پرویز صاحب۔ تاکہ صدیوں پہلے ہونے والی اس مزعومہ ’عجمی سازش‘ کے خلاف ان کے بہ تکرار و اِعادہ برپا کئے ہوئے شوروشغب اور تحریری وتقریری پراپیگنڈے کے نتیجہ میں وہ ’عربی سازش‘ چھپ جائے جو بٹالہ کے خالص ’عرب علاقے‘ میں پیدا ہونے والے اس ’مفکر ِقرآن‘ نے کی ہے، جس نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قرآن کے نام پر مغربی معاشرت اور اشتراکی معیشت کا ملغوبہ تیار کرڈالا۔ یہ وہ دوسرا اسلام تھا جو ’عجمی اسلام‘ کے مقابلہ میں ’خالص عربی اسلام‘ تھا۔ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ علماے کرام آنکھوں سے دیکھتے، اس مکھی کونگل لیتے اور قرآن کے نام پر کی جانے والی اس بدترین تحریف کو ٹھنڈے پیٹوں گوارا کرلیتے۔ علماے کرام اور پرویز صاحب کے درمیان کشمکش کا واقع ہونا ناگزیر تھا۔ چنانچہ یہ کشمکش واقع ہوئی اور ’مفکر ِقرآن‘ نے اس میں مخالفت ِعلما کو’طلوع اسلام کی حقیقت آفریں آواز‘ کی مخالفت قرار دیا : ’’طلوعِ اسلام کی یہی وہ حقیقت آفریں آواز تھی جس کے جرم میں اسے مذہبی اِجارہ داروں کے عتاب کا شکار بننا پڑا۔‘‘ اور ایک دوسرے مقام پر یہ فرماتے ہیں : ’’۔۔۔اور اس کے ساتھ دیکھئے کہ اس (طلوعِ اسلام) کی زندگی میں کوئی وقت ایسا آیا ہے جب عصا بردارانِ شریعت، اس کے پیچھے لٹھ لئے نہ پھر رہے ہوں ؟ ۔۔۔کوئی محراب و منبر بھی ایسا ہے (الا ماشاء اللہ) جو اس کے خلاف دشنام طرازیوں کی نشرگاہ نہ بن رہا ہو اور عباؤں اور قباؤں پرمشتمل کوئی مجمع بھی ایسا ہے جہاں اس کے خلاف محاذ بنانے کی تدابیر، خود ان کے لئے غارت گر ِسکون و اطمینان او ران کے مقلدین و متبعین کے لئے وجہ حصولِ جنت نہ قرار پارہی ہو۔‘‘
Flag Counter