عجمی اور ’قرآنی‘ اسلام الغرض علماے کرام تو یقینا وہی صدیوں پرانادین اسلام پیش کررہے ہیں جو محمد رسول اللّٰه والذین معہ کے ہاتھوں سے اُمت کو ملا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان بننے کے بعد خود ’مفکرقرآن‘ ہی کی سمت ِقبلہ (بظاہر) تبدیل ہوچکی ہے اور ان کا زاویۂ نظر اور اس کے ساتھ ہی نگاہوں کا نقطۂ ماسکہ بدل چکا ہے، اس لئے علماے کرام کااسلام، اب اُنہیں ’عجمی اسلام‘ دکھائی دیتا ہے اور مغربی معاشرت کے خدوخال کے ساتھ اشتراکیت کی پیوند کاری کے نتیجہ میں جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں ، وہ اُنہیں ’قرآنی اسلام‘ نظر آتا ہے۔ پھر اس ’عجمی اسلام‘ کے متعلق کبھی ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ دورِ نزولِ قرآن سے پہلے کا وہ مذہب ہے جو اہل کتاب اختیار کئے ہوئے تھے : ’’آج جو اسلام دنیا میں مروج ہے، وہ زمانۂ قبل از قرآن مذہب ہو تو ہو، قرآنی دین سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔‘‘ اور کبھی ہمیں یہ باور کروایا جاتاہے کہ ’عجمی اسلام‘ دورِ نزولِ قرآن کے بہت بعد، ایرانیوں کی شکست کے بعد ان کی انتقامی سازش کا نتیجہ ہے : ’’اُنہوں (ایرانیوں ) نے اُن عربوں سے شکست کھائی تھی، جنہیں وہ ابھی کل تک وحشی اور جنگلی شمار کیا کرتے تھے اور شکست بھی ایسی جس سے ان کی اس قدر وسیع سلطنت اور ایسی قدیم تہذیب کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ ہونے کو تو مسلمان (یعنی اسلامی سلطنت کے فرمانبردار) ہوگئے، لیکن اس شکست اور محکومی کا احساس ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا، اور اپنے حریف عربوں کی شان و شوکت کے منظر سے ان کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھتی تھی۔ اُنہوں نے یہ انتقام دو طرح سے لیا: ایک تو بساطِ سیاست پر، جہاں اُنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اُمت ِواحدہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور دوسرے مذہب کے میدان میں ۔‘‘ دو اسلام بہرحال پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا،اس میں جب نفاذِ اسلام کی |