روایت کریں جن سے انھوں نے سنا ہے تو حسن الحدیث صدوق ہیں ۔الخ رہا مجہولین سے احادیث ِ با طلہ بیان کرنا تو ان میں جرح مجہولین پر ہے۔ْ معلوم ہوا کہ درج بالاعبارت میں کا ندھلوی نے امام ابن نمیر پر جھوٹ بولا ہے اور عربیت میں اپنی جہالت کا ثبوت بھی پیش کردیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ کاندھلوی صاحب کی اپنی ذات مشکوک ہے اور پرانے ضعیف ومتروک راویوں کی طرح وہ بذاتِ خود ضعیف ومتروک شخصیت ہیں ۔ 2. ہمارے علم کے مطابق کسی ایک محدث نے بھی عبدالرزاق کو رافضی نہیں کہا ، رہا مسئلہ معمولی تشیع کا تو یہ جمہور کے ہاں موثق راوی کے بارے میں چنداں مضرنہیں ہے۔ خود کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں : ’’ گوشیعہ ہونا بے اعتباری کی دلیل نہیں ‘‘، دوسرے یہ کہ تشیع سے عبدالرزاق کا رجوع بھی ثابت ہے، جیسا کہ اسی مضمون میں باحوالہ پیچھے گزر چکا ہے۔ 3. عبدالرزاق پر کذاب والی جرح کسی محدث سے ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت بھی ہوجائے تو امام احمد،امام ابن معین اور امام بخاری وغیرہم کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔ 4. یہ شرائط کا ندھلوی صاحب کی خود ساختہ ہیں ۔ 5. جوراوی ثقہ وصدوق ہو تو اس پر شیعہ وغیرہ کی جرح کرکے اس کی روایات کو ناقابلِ قبول سمجھنا غلط ہے۔ شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ معلمی یمانی نے ثابت کیا ہے کہ ’’سچا راوی جس پر بدعتی ہونے کاا لزام ہے، کی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے ،چاہے وہ اس کی بدعت کی تقویت میں ہویا نہ ہو بشرطیکہ بدعت ِمکفرہ نہ ہو۔ مشہور دیوبندی عالم ومصنف سرفرازخان صفدر صاحب لکھتے ہیں : ’’اور اُصولِ حدیث کی رُو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جہمی معتزلی یا مرجیٔ وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثرانداز نہیں ہوتا۔ ‘‘ |