6. یہ مسلّم ہے کہ اختلاط سے پہلے عبدالرزاق کی ساری(صحیح ) روایات صحیح ہیں ، جیسا کہ اس مضمون میں اختلاط کی بحث کے تحت گزر چکا ہے۔ رہی اختلاط کے بعد والی روایتیں تو بے شک ناقابل قبول ہیں ۔ 7. عبدالرزاق کا بھانجا احمدبن داود مشہور کذاب تھا۔ لہٰذااس کا عبدالرزاق سے منکرروایتیں بیان کرنا خود اس کی اپنے کذب کی وجہ سے تھا ، عبدالرزاق کی وجہ سے نہیں ، لہٰذا اس جرح سے عبدالرزاق بری ہیں ۔ 8. بعض محدثین نے عبدالرزاق کی معمر سے روایتوں پر جرح کی ہے، مثلاً دارقطنی نے فرمایا : ’’ثقۃ یخطیٔ علی معمر في أحادیث لم تکن في الکتاب‘‘ ان بعض کے مقابلے میں جمہور محدثین نے عبدالرزاق کو معمر سے روایت میں قوی اور صحیح الحدیث قراردیا ہے۔ امام احمدبن حنبل نے فرمایا : جب معمر کے شاگردوں میں معمر کی حدیث کے بارے میں اختلاف ہو تو عبدالرزاق کی حدیث (ہی راجح) حدیث ہوگی۔ ابن معین نے کہا کہ معمر کی حدیث میں عبدالرزاق ہشام بن یوسف سے زیادہ ثقہ تھے۔ بخاری ومسلم نے صحیحین میں عبدالرزاق کی معمر سے روایات بکثرت لکھی ہیں اور دوسرے محدثین، مثلاً ترمذی وغیرہ نے عبدالرزاق کی معمر سے روایات کو صحیح قرار دیا ہے ۔ 9. رافضیت کا الزام ثابت نہیں ہے ۔ 10.زید بن مبارک کی طرف منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔ 11.ہم نے بحمداللہ کتب ِرجال کو ملا حظہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امام عبدالرزاق جمہور محدثینِ کرام وکبار علماے اہل سنت کے نزدیک ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث وحسن الحدیث تھے ۔ آپ ۲۱۱ ھ میں فوت ہوئے ۔ رحمہ اللّٰه رحمۃ واسعۃ |