امام عبد الرزاق پر جرح ان موثقین کے مقابلے میں عبدالرزاق پر درج ذیل جرح ملتی ہے : 1. اختلاط 2. تدلیس 3. تشیع 4.روایت پر جرح 1. اختلاط کا الزام تو ثابت ہے ۔امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ہم عبدالرزاق کے پاس ۲۰۰ھ سے پہلے گئے تھے اور ان کی نظر صحیح تھی، جس نے اُن کے نابینا ہونے کے بعد سنا ہے تو اس کا سماع ضعیف ہے۔ امام نسائی نے کہا: ’’فیہ نظر لمن کتب عنہ بآخرۃٍ‘‘ ’’جس نے اُن سے آخری دور میں لکھا ہے اُس میں ’نظر‘ ہے ۔‘‘ اختلاط کے بارے میں یہ اُصول ہے کہ جس ثقہ وصدوق راوی کی روایتیں اختلاط سے پہلے کی ہوں تو وہ صحیح ہوتی ہیں ۔ درج ذیل راویوں نے عبدالرزاق کے اختلاط سے پہلے سنا ہے: احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ ،علی بن مدینی ،یحییٰ بن معین اور وکیع بن جراح وغیرہ۔اسی طرح اسحق بن منصور،محمود بن غیلان ،اسحق بن ابراہیم سعدی ،عبداللہ بن محمد مسندی ،محمد بن یحییٰ بن ابو عمر عدنی ،یحییٰ بن جعفر بیکندی ، یحییٰ بن موسیٰ بلخی، احمد بن یوسف سلمی ، حجاج بن یوسف الشاعر،حسن بن علی خلال ،سلمہ بن شبیب ، عبدالرحمن بن بشر بن حکم ،عبدبن حمید، عمروبن محمد ناقد ،محمد بن رافع اور محمدبن مہران حمال وغیرہم کا عبدالرزاق سے سماع اختلاط سے پہلے ہے۔ لہٰذا عبدالرزاق کی مطلق روایات پر اختلاط کی جرح کوئی جرح ہی نہیں ہے۔ والحمدللہ 2. تدلیس کا الزام ثابت ہے ۔ تدلیس کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عَن والی روایت (معتبر متابعت یامعتبر شاہد کے بغیر) ضعیف ہوتی ہے ۔ دیکھئے، کتب ِاُصولِ حدیث اور ماہنامہ |