ثابت ہوئیں جس سے رفاقت اور تعلق تاحین وصال خوشی ومسرت کا مظہر رہا۔ مولانا عبد الرشید رحمۃ اللہ علیہ راشد خوشنویسی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔ شیخ محترم کی تالیفات کی کتابت کرنا اپنے لئے سعادت مندی تصور کرتے تھے بلکہ عام حالات میں اس غرض کے لئے جو بھی آیا، نامراد واپس نہ ہوا، پھر کبھی کسی سے معاوضہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی حکمت ِیونانی سے بھی ان کو شغف تھا، اہل ِذوق حضرات سے ہمیشہ رابطہ رکھتے اور مختلف ادویہ تیار کرتے رہتے۔ ان سے میرے تعارف کا آغاز اس وقت ہوا جب ۱۹۷۷ء میں بندہ نے دارالحدیث راجو وال میں شدید گرمی کے موسم میں بیرونی طلبہ کو تفسیر پڑھائی۔ یہ وہ دور تھا جبکہ راجووال میں بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ روزانہ قریباً چار گھنٹے شائقین علم کو قرآنی تفسیر املا کرواتا۔ ایک صالح متقی بزرگ محمد عمر جو شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ کے خصوصی عقیدت مندوں میں سے تھے، وہ ہمیں بڑے دستی پنکھے سے ہوا دیا کرتے ،اللہ ربّ العزت ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین! بعد ازاں موصوف نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا۔ جامعہ ہذاکا جملہ انتظام و انصرام چونکہ میرے سپرد تھا، اس لئے تعلیمی مراحل میں مسابقت حاصل کرنے والے طلبہ کا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ میری وساطت سے ہوتا تھا۔ انہی خوش قسمت طلبہ سے ایک آپ بھی تھے جن کو مدینہ نبویہ میں حصولِ علم اور سالہا سال تک جوارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سکونت کا موقعہ میسر آیا۔ان کے آخری تعلیمی سال میں اللہ ربّ العٰلمین نے مجھے زیارتِ مدینہ طیبہ سے نوازا تو وہاں یہ طے پایا کہ آپ میری رفاقت اور مصاحبت میں تدریسی فرض ادا کریں گے۔ میں اس وقت چونکہ جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں بحیثیت ِمبعوث کام کررہا تھا تو آپ نے اس بات کا عزم بالجزم کرلیا بلکہ ان کے ہمراہ دیگر فضلا مولانا زید احمد اور حافظ عبدالستار بھی میرے شاگرد ہونے کے ناطے اسی مؤسسہ علمیہ (جامعہ)میں تشریف لے آئے۔ موصوف اس کے ساتھ جامعہ عزیزیہ اور جامعہ اُمّ حبیبہ لاہور میں بھی عرصہ تک تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے ۔ طالبات کی کثیر تعداد نے ان سے استفادہ کیا، یہ سب اضافی |