بیان دیا: ’’ جس قدر لاہور میں بسنت کی دھوم دھام دیکھنے میں آئی ہے، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ لاہور ہندوستان کا ہی حصہ ہے۔ ہمیں تو یہاں بسنت منا کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں ۔‘‘ (روزنامہ جنگ ، ۲۱/ فروری ۲۰۰۱ء) 11. سونیا گاندھی کانگریسی لیڈر سونیا گاندھی جو پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کرنے کا اظہار کرتی رہتی ہیں ۔ ۱۹۹۸ء میں بسنت کے موقع پر ان کا بیان شائع ہوا : ’’ہم سیاسی طور پر نفرت کی بنیادیں ہلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا۔‘‘ (روزنامہ جنگ: ۲۲/ فروری ۱۹۹۸ء) مندرجہ بالا سطور میں درج شدہ تاریخی حوالہ جات اور ہندوؤں کے بیانات پڑھنے کے بعد کیا کوئی ایسا صحیح الفکر انسان ہے جو اس بات میں شک کا اظہار کرے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے۔ بال ٹھاکرے اور دیگر ہندوستانی شہریوں کے بیانات ہماری دینی غیرت اور قومی حمیت کے لئے عبرت ناک تازیانہ نہیں ہیں ؟ یہ ہم سب پاکستانیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو آج بھی نہایت خلوص سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تاکہ یہاں اسلام کے روشن اُصولوں کو نافذ کیا جاسکے اور جو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنے کے تصور سے اب تک دست بردار نہیں ہوتے ہیں ۔ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ مزید تفصیل کے لئے درج ذیل کتب دیکھیں : ’تاریخ لاہور‘ از کنہیا لال صفحات : ۲۱۰، ۲۱۱ پنجاب انڈر دی لیٹر مغل از بخشش سنگھ نجار صفحہ: ۲۷۹ ٹرانسفر میشن آف سکھ ازم از ڈاکٹر گوگل نارنگ چند پنجاب ؛تاریخی وتمدنی جائزہ از ڈاکٹر انجم رحمانی صفحات: ۴۲۶،۴۵۸ بسنت ؛لاہور کا ثقافتی تہوار از نذیر احمد چودھری صفحہ: ۱۶ |