از غلامی فطرت او دوں شدہ نغمہ ہا اندر نئے او خوں شدہ[1] ’’غلامی کی وجہ سے انسانوں کی فطرت پست ہوگئی،انسانیت کی نے کے نغمے خوں آلود تھے۔‘‘[2] لیکن اس کے برعکس پرویز صاحب یہ کہہ کر انسانی فطرت کا انکار کرتے ہیں : ’’فطرتِ انسانی کا عقیدہ وحی کے منکرین نے وضع کیا، لیکن اس کی تبلیغ ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے جو وحی پر ایمان رکھنے کے دعویٰ سے مسلمان کہلاتے ہیں ۔‘‘[3] یہ کہتے ہی پرویز صاحب کے جذباتِ غیظ و غضب میں شدت پیدا ہوجاتی ہے،غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، مزاج کے گرم تو وہ تھے ہی، فرطِ غضب اور جوشِ غیظ میں وہ انسانی فطرت کے قائلین پر یوں برسنا شروع ہوجاتے ہیں : ’’حرام، جو یہ لوگ کبھی کھڑے ہوکر سو چیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور ایسا کہنے کے اثرات ونتائج کیا ہیں ۔ بس بھیڑوں کی ایک قطار ہے جو صدیوں سے اس راستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چلی تھی ﴿کَمَثَلِ الَّذِيْ یَنْعِقُ بِمَا لاَیَسْمَعُ إلَّا دُعَائً وَّنِدَائً صُمٌّ بُکْمٌ عُميٌ فَھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ﴾‘‘[4] پسماندگانِ پرویز اور وابستگانِ طلوعِ اسلام سے یہ درخواست ہے کہ وہ ذرا سوچ کر یہ بتائیں کہ کیا واقعی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ’’جو وحی پر ایمان رکھنے کے دعویٰ سے مسلمان کہلاتے ہیں ‘‘ لیکن پھر’’انسانی فطرت کے عقیدہ کی تبلیغ بھی کرتے ہیں ‘‘ حالانکہ ’’یہ عقیدہ منکرین وحی کا وضع کردہ عقیدہ ہے۔‘‘ اور کیا واقعی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے متعلق ’مفکر قرآن‘ کایہ انکشاف ہے کہ’’حرام، جو یہ لوگ کبھی کھڑے ہوکر سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ایسا کہنے کے اثرات و نتائج کیا ہیں ؟‘‘ نیز کیا واقعی ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ (معاذ اللہ) ان جانوروں میں شامل ہیں جن کے متعلق ’مفکر ِقرآن‘ نے کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی زبان کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ ’’بس بھیڑوں کی ایک قطار ہے جو صدیوں سے اس راستے پر |