نفس مسئلہ نہ تو یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا غلط، اور نہ ہی یہ کہ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس دور میں منظر ِعام پر آیا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ واقعی منکر حدیث تھے تو پھر وہ تمسک بالحدیث کا دم کیوں بھر رہے ہیں ؟ پرویز صاحب کی ذہنی عیاری ملاحظہ فرمائیے کہ وہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث سے وابستگی کو تو نظر انداز کردیتے ہیں (جو کہ ان کے اعتقاد برحدیث کی دلیل ہے) اور بحث یہ شروع کردیتے ہیں کہ حدیث وضعی ہے اور یہ فلاں عہد میں وضع ہوئی تھی۔ پرویز صاحب خود ہوں یا کوئی اور منکر ِحدیث ہو ، اُنہوں نے کبھی یہ سو چنے کی زحمت نہیں کی کہ جھوٹی احادیث آخر گھڑی کیوں گئیں ؟ اگر وہ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عناد و تعصب اور ضد و ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر اس سوال پر غور کرتے تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی کہ ’’ان کے گھڑے جانے کی وجہ یہی تو تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل حجت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک غلط بات منسوب کرکے جھوٹے لوگ کوئی نہ کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے۔ اگر وہ حجت نہ ہوتا اور کسی شخص کے لئے اپنے کسی دعویٰ کے حق میں حدیث لانا اور نہ لانا یکساں بے فائدہ ہوتا تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک غلط بات تصنیف کرنے کی تکلیف اُٹھاتا۔ دنیا میں ایک جعل ساز وہی نوٹ تو بناتا ہے جو بازار میں قدروقیمت رکھتا ہو۔ جس نوٹ کی کوئی قدروقیمت نہ ہو، اسے آخر کون احمق جعلی بنائے گا؟‘‘[1] مقالہ کی طوالت کے پیش نظر صرف انہی دو اقتباسات پر اکتفا کیا جاتا ہے، جو لوگ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک ِحجیت ِحدیث کے بارے میں تفصیلاً جاننے کے خواہشمند ہیں وہ ماہنامہ ’محدث‘ کا شمارہ اپریل ۱۹۹۰ ء اور جولائی ۲۰۰۵ء کا پرچہ دیکھیں ۔ دوسرا اختلاف انسانی فطرت کے بارے میں کیا انسان کی کوئی فطرت ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے موقف اور پرویز صاحب کی رائے میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہ کہہ کر انسانی فطرت کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں : |