Maktaba Wahhabi

70 - 79
تذکیر و موعظت مولانا عبد الجبار سلفی ظلم و ستم اور بے انصافی کا دور دورہ بھی زلزلے کا سبب ہے! غالباً ۱۹۹۹ء کی بات ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تقریباً ۱۲ سے لے کر ۲۰ ممبران قومی اسمبلی کے جلو میں بیٹھے۔ ۲۰۱۰ء تک حکومت کے منصوبے پر غور کر رہے تھے تو مولانا معین الدین لکھوی (سابق ایم این اے) نے فرمایا کہ آپ لوگ ۲۰۱۰ء تک منصوبے بنا رہے ہیں جبکہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ میاں صاحب کی حکومت کے وزیر ۲۰۰۰ء سے بھی پہلے میاں صاحب کی حکومت کی ناؤ ڈبو دیں گے۔ یہ بات سن کر میاں صاحب نے پوچھا: وہ کیسے؟ مولانا نے بتایا کہ آپ کی حکومت کے ایک وزیر نے انتخابی رنجش کی بنا پر اپنے حلقے کے ایک بے گناہ شخص کو قتل کے مقدمے میں پھنسا دیا اور میں نے اس بے گناہ شخص کی صفائی بھی دی، لیکن پھر بھی اس نے ۷۰ ہزار روپے لے کر اسے حوالات سے نکلوایا اور یہ بات اتنی یقینی ہے کہ ویا وہ ۷۰ ہزار روپے میرے ہاتھوں سے وصول کئے گئے۔ یہ سن کر میاں صاحب کہنے لگے کہ مولانا آپ اس وزیر کا نام بتا سکتے ہیں؟ مولانا نے فرمایا: میں ابھی بتا سکتا ہوں بشرطیکہ آپ ان ممبرانِ اسمبلی کے سامنے وعدہ کریں کہ آپ اس کا ایکشن لیں گے۔ یہ شرط سن کر دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر سابق صدر و آرمی چیف کو بلڈوز کرنے والے وزیر اعظم خاموش ہو گئے اور اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اسی سال ان کی حکومت کی کشتی غرق ہو گئی۔ غور کریں جس ملک کے زیر اعظم نے ملک سے بے انصافی اور رشوت ختم کرنے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے وعدے پر پورے ملک کے وام کو بیوقوف بنایا اور وہ آرمی چیف جہانگیر کرامت، صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی اپنے اقتدار کے لئے ان کے عہدوں سے ہٹا چکا ہو، کیا وہ اپنے کرپٹ وزیر کا ایکشن نہیں لے سکتا تھا؟ ! یقیناً لے سکتا تھا لیکن ہمارے ملک کے حکمرانوں کے احتساب لینے کے دوہرے معیار ہیں۔ وہ اپنی حکومت کی
Flag Counter