Maktaba Wahhabi

46 - 79
تحقیق و تنقید پروفیسر محمد دین قاسمی ’طلوعِ اسلام‘ کے حضور بہ جواب ’محدث‘ کی خدمت میں منکرین حدیث کی طرف سے طلوعِ اسلام، مئی ۲۰۰۵ء میں مولوی ازہر عباس (فاضل درسِ نظامی) کی قلم سے قرآن فہمی کے سلسلہ میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں مولانا زاہد الراشدی کے اس موقف کی تردید کی گئی تھی کہ قرآن فہمی کے لئے اگرچہ لغت اور دورِ نزولِ قرآن کا جاہلی ادب بھی معاون ہے، لیکن اس کا اصل انحصار، بہرحال مہبطِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تشریحات پر ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مامور من اللہ شارح بھی تھے اور شارع بھی۔ مولوی ازہر عباس صاحب نے جو منکرین حدیث کے موقف کے ترجمان ہیں، اس پر ’روایت پرستی‘ کا لیبل چسپاں کرتے ہوئے اعتراضات و اشکالات پیش کئے تھے۔ میں نے ان میں سے تقریباً ہر ایک اعتراض کا جواب منکرین حدیث اور بالخصوص پرویز صاحب کے لٹریچر سے فراہم کیا تھا، لیکن چونکہ پرویز صاحب کا سارا لٹریچر، تضادات و تناقضات سے اَٹا پڑا ہے جو منکرین حدیث کے لئے وجہ پریشانی ہے، اس لئے جب میں نے ان لوگوں کے موقف کی تردید خود پرویز صاحب کی عبارتوں سے کی تو ایک طرف قارئین ’محدث‘ میں سے بعض علما نے مضمون پڑھتے ہی مدیر ’محدث‘ کو بذریعہ ٹیلیفون پر یہ تبصرہ کیا کہ قاسمی صاب کے اس نوعیت کے مضامین بہت مفید ہیں، ان کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور دوسری طرف وابستگانِ طلوع اسلام سٹپٹا اُٹھے اور مولوی ازہر عباس احب نے میرے اندازِ نگارش کو میری مناظرانہ خو قرار دیا۔ میرے مضمون کے جواب میں جو کچھ اُنہوں نے فرمایا، اسے میں مندرجہ دس نکات کی صورت میں پیش کرتے ہوئے ان پر اپنا نقد و تبصرہ پیش کر رہا ہوں: پہلا نکتہ: وہ اپنے پہلے نکتہ میں فرماتے ہیں: ’’مجھے اپنی اس خامی کے اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کہ میں بنیادی طور پر
Flag Counter