Maktaba Wahhabi

47 - 79
طبعاً مناظر واقع نہیں ہوا ہوں، میری طبیعت مناظرے سے اِبا کرتی ہے۔ مناظرہ حق و باطل کا معیار نہیں ہوتا۔ یہ محض (Mental Gymnastic) ہوتا ہے۔ اس سے مناظر کی انا (Ego) کو تسکین ہوتی ہے کہ میں نے مقابل کو ہرا دیا ہے۔ اس لئے اس مضمون میں پش نر مناظرہ ہے، نہ خدانخواستہ اپنے بزرگ بھائی پروفیسر محمد دین قاسمی صاحب کو شکست دینے کا خیال مقصد صرف احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہے، جس کا طریقہ بھی پیش خدمتِ عالی کر دیا گیا ہے۔ مجھے اس بات بھی اعتراف ہے کہ پروفیسر صاحب عالم ہیں۔‘‘[1] امر واقعہ یہ ہے کہ نہ تو میں کوئی مناظر ہوں اور نہ ہی عالم۔ مولوی ازہر عباس صاحب کو میرے مقالہ میں پرویز صاحب کے قدیم و جدید متعدد اقتباسات کو دیکھ کر شاید یہ سوے فہم لاحق ہوا ہے کہ میں کوئی مناظر ہوں، حالانکہ حقیقت صرف یہ ہے کہ میں اپنے دینی ذوق کی بنا پر کھلے دل سے ہر مکتبِ فکر کا مطالعہ کرتا ہوں۔ البتہ اگر میں کسی کو برسر غلطی جان کر، اس کی تردید کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور جب تک قابل لحاظ حد تک معلومات حاصل نہ کر لوں، اُس کی تردید میں قلم نہیں اُٹھاتا۔ پھر یہ مناظرہ بازی کا فن، ان سیکولر اداروں کے مزاج اور نصاب سے قطعی میل نہیں کھاتا جن میں، میں زیر تعلیم رہا ہوں۔ رہے وہ دینی مدارس جن میں سے کسی میں داخل ہو کر مولوی صاحب موصوف نے خود تعلیم پائی ہے اور فاضل درس نظامی بنے ہیں تو ان کے ماحول اور مزاج سے وہ خود مجھ سے کہیں زیادہ واقف و شناساں ہیں۔ اور میں عالم بھی نہیں ہوں صرف ایسا دینی طالب علم ہوں جس نے علما کرام کی خدمت میں بیٹھنے کے سبب مطالعہ قرآن کا شغف پایا ہے۔ تاہم یہ میرے مزاج کی انفرادیت ہے کہ میں یک رخے مطالعہ کے سانچے میں اپنے دل و دماغ کو ڈھال لینا خلافِ عدل اور تنگ نظری سمجھتا ہوں۔ مجھے ہرگز ہرگز یہ پسند نہیں ہے کہ میں خود کو کسی خاص خول میں اس طرح مقید اور محبوس کر لوں کہ کسی دوسرے شخص کے موقف کی (خواہ وہ موقف کتنا ہی روشن ہو) کوئی کرن مجھ تک راہ نہ پاسکے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ بربنائے دلیل جس چیز کو زنی پاؤں، اسے اپنا لوں۔ دوسرا نکتہ: اپنے دوسرے نکتہ میں مولوی صاحب موصوف، اُمتِ مسلمہ میں برداشت
Flag Counter