اور رواداری کے نہ ہونے پر یں اظہارِ تاسف فرماتے ہیں: ’’ہماری بد قسمتی کہ پاکستان میں اس درجہ روا داری کا ماحول پیدا نہیں ہو سکتا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر یورپین ممالک، جنہیں ہم برا وقت کہتے ہیں، ان میں اسی طرح کی رواداری برتی جاتی ہے۔‘‘[1] مولوی صاحب موصوف اہل پاکستان کی بدقسمتی پر اظہارِ افسوس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان میں سیکولر حکومتوں کی بالعموم او جناب پرویز صاحب کی بالخصوص پرزور کوششوں کے باوجود اس درجہ رواداری کا ماحول پیدا نہیں ہو سکا کہ لوگ، قرآن بلا محمد اور کتاب بلا رسول کے ’مسلکِ معقول‘ کو قبول کر پائیں اور میانوالی کے لوگ، منکرین حدیث کے جنازوں میں شریک ہو سکیں اور رسول اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ کر (قرآن کے نام کی آڑ میں) پرویز صاحب کی پیروی پر آمادہ ہو جائیں اور ’مفکر قرآن‘کے اکاذیب و اباطیل کو حقائق قرار دے سکیں۔ اہل یورپ اور اہل مغرب کی رواداری پر اُنہیں اگر طلوعِ اسلام داد نہ دے تو اور کون ستائش کرے جو پرویز صاحب کو پاکستان میں سب سے بڑا فعال ریفارمر قرار دیتے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف کے نزدیک تو رواداری کے اعتبار سے ’خوش قسمتی‘ کا وہ دور ہو گا، جب لوگ اشتراکیت کو نظامِ ربوبیت کے نام سے قبول کر لیں گے اور قرآنی ایمانیات کی فہرست میں ’انسانی ذات پر ایمان‘ کے خود ساختہ عقیدہ کو ٹھنڈے پیٹوں گوارا کر لیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ ((والقدر خيره وشره من اللّٰه تعالٰي)) کے الفاظ کو ’عجمی سازش‘ کا نتیجہ قرار دیں گے۔ اور معیارِ اخلاق اس قدر ترقی کر جائے کہ جھوٹے کو جھوٹا اور بددیانت کو بد دیانت کہنا بھی غیر اخلاقی طرزِ عمل کہلائے گا۔ بقول اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ مغوی کو برا مت کہو، رغیب ہے یہ میں کس سے کہوں، نفس کی ترغیب ہے یہ شیطان کو رجیم کہہ دیا تھا اِک دِن اِک شور اُٹھا، خلافِ تہذیب ہے یہ تیسرا نکتہ: اپنے تیسرے نکتہ میں مولوی صاحب فرماتے ہیں: ’’ہم سب قرآن کے خادم و عاشق ہیں۔‘‘[2] ماشاء اللہ! قرآن کے خادم و عاشق ہونے کا یہ کیا ہی خوب تقاضا ہے کہ کتاب اللہ کے جعلی پرمٹ پر مغرب کی معاشرت کے ان جمعلہ اجزا کو درآمد کر لیا جائے جنہیں اگرچہ پرویز صاحب |