Maktaba Wahhabi

49 - 79
نے بڑی جانگسل مشقتوں کے ساتھ قرآن سے نچوڑ ڈالا ہے، مگر اہل مغرب بغیر کسی قرآن کے انہیں اپنائے ہوئے ہیں۔ مخلوط تعلیم، مخلوط سوسائٹی، ترکِ حجاب و نقاب، مرد و زَن کی مطلق اور کامل مساوات، درونِ خانہ فرائض نسواں کی بجائے، اُنہیں بیرونِ خانہ مشاغل میں منہمک کرنا، عددِ ازواج کو معیوب قرار دینا وغیرہ میں سے آخر وہ کون سی چیز ہے جسے قرآن کے یہ عشاق و خدام تہذیبِ مغرب سے اخذ نہیں کر رہے ہیں۔ رہا معاشی نظام تو وہ و پورے کا پورا، اشتراکیت ہی سے لے کر اس پر ’قرآنی نظامِ ربوبیت‘ کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ اس کاروائی کے بعد، یہ خدامِ قرآن اور عشاقِ کاب اللہ، گنگا و جمنا کو کوثر و تسنیم قرار دے کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ’مفکر قرآن‘ کی قرآنی بصیرت‘ نے ’اجتہاد‘ کا حق ادا کر دیا ہے اور قرآن مجید کو ’روشن دور‘ کی ایک راہنما کتاب ثابت کرتے ہوئے اسے اس الزام سے بالا تر کر دیا ہے کہ وہ ماضی کے ’تاریک دور‘ کی کتاب ہے۔ چوتھا نکتہ: اس کے بعد اپنے تیسرے نکتہ کے تسلسل میں کیا ہی خوب فرماتے ہیں: ’’ہم سب۔ مسلمانوں کے زوال و ادبار پر آنسو بہاتے ہیں۔ ان کی ترقی و خوشحالی کے خواہاں ہیں۔ سب پاکستانی ہیں؛ صرف نظریات کے اختلاف سے کیسی دشمنی اور کیسی مغایرت؟ ہم سب ایک اُمت ہیں اور اُمتِ واحدہ۔‘‘ [1] یہ بالکل وہی انداز ہے جو مرزائی حضرات خود کو اُمتِ مسلمہ میں شامل اور باور کروانے کے لئے اختیار کیا کرتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ لب و لہجہ کی یہ نرمی اور ملائمت اس طلوعِ اسلام میں پیش کی جا رہی ہے جس میں پرویز صاحب سب و شتم اور دشنام طرازی کو ایک فن کی حیثیت دیتے ہوئے علمائے اُمت کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور اُنہیں منکر قرآن قرار دیتے رہے ہیں او زہر میں بجھی ہوئی ایسی قلمکاری کرتے رہے ہیں کہ ہر سلیم الطبع قاری نے یہ محسوس کیا کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب، لسان قلم نہیں بلکہ بچھو کا ڈنک رکھتے ہیں اور اس ڈنک کا نشانہ نہ صرف یہ کہ پرویز صاحب کے مخالفین ہی بنے ، بلکہ بزمِ طلوع اسلام کے افراد میں سے وہ مقربین پرویز بھی بنے جنہوں نے میزان پبلی کیشنز کے معاملات میں ان سے اختلاف کیا اور نتیجتاً میاں عبد الخالق صاحب اور حافظ برکت اللہ وغیرہ یہ کہہ کر سکوت و سکون سے اپنے
Flag Counter