گھروں میں جا بیٹھے کہ فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں خبر نہیں ہے روشِ بندہ پروری کیا ہے! پھر طلوعِ اسلام میں مولوی صاحب موصوف کا یہ نرم و نازک اور ملائم و ناعم لب و لہجہ، تندی، تیزی، تلخی اور شدت و غلظت کے اس معیار کے یکسر برعکس ہے جس پر خود پرویز صاحب نے علمائے کرام کو مذہبی پیشوائیت اور ہامانیت جیسی خود ساختہ اصطلاحات کی آڑ میں مطعون کرتے ہوئے طلوعِ اسلام کو ’ادبِ عالیہ کے مقامِ رفیع‘ پر قائم کیا تھا۔ برگِ گل پر یہ شبنم کا سالب و لہجہ، طلوعِ اسلام میں دیکھ کر خواہ مخواہ میرے دل میں یہ احساس اُبھر رہا ہے: مجھ تک کب اُن کی بزم میں آتا تھا دورِ جام ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں! اور پھر مجھے سب سے زیادہ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ مجھ جیسے ذرۂ ناچیز قرآنی طالب علم کے لئے مولوی ازہر عباس صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ پروفیسر صاحب عالم ہیں۔‘‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ اسی طلوعِ اسلام میں کہا جا رہا ہے جس میں سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شہرۂ آفاق شخصیت۔ جن کے قلم نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں جدید تعلیم یافتہ ذہنوں پر سے تہذیبِ مرب کی برتری کا طلسم توڑا اور بہت سے غیر مسلم ان کی کتب کے مطالعہ کی بدولت حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ کے بارے میں خود پرویز صاحب نے یہ لکھا تھا کہ ’’ہم مودودی صاحب کو نہ دین کا عالم مانتے ہیں نہ کوئی مفکر۔‘‘ [1] ’’یہ صاحب قرآنی حقائق و تصورات کی ابجد تک سے لا بلد ہیں۔‘‘ [2] یہ ہیں پرویز صاحب کی وہ کوششیں جو وہ ہر حکومت کے ساتھ مل کر وطن عزیز میں رواداری کا ماحول پیدا کرنے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ پانچواں نکتہ: مولوی صاحب اپنے پانچویں نکتے میں غالباً محدث کے ’فتنۂ انکارِ حدیث نمبر‘ کے متعلق یہ شکایت فرماتے ہیں: |