’’۲۸۰ صفحات پر مشتمل رسالہ میں حدیث پر جامع مضامین تحریر کئے گئے، عربوں کے حافظے کو سراہا گیا جو بالکل غیر متعلقہ عنوان ہے۔‘‘ [1] ایک اور مقام پر پھر یہی شکوہ دہراتے ہیں: ’’عربوں کے حافظے کی بڑی تعریف کی گئی کہ ان کے حافظے اس قدر مضبوط تھے کہ اُنہوں نے احادیث نقل کرنے میں بہت کم غلطیاں کیں۔‘‘ [2] معاملہ خوہ تدوین قرآن کا ہو یا تدوین حدیث کا، کتابت سے کہیں زیادہ مؤثر ذریعہ حفظ اور حافظے کے عمل کا ہے۔ پھر نامعلوم عربوں کے قوی حافظہ کا ذِکر، غیر متعلقہ عنوان کیسے قرار پا سکتا ہے؟ خود پرویز صاحب کی تحریروں کی روشنی میں قرآن کا ’نسخہ ثانیہ‘ بذریعہ حافظہ ہی معرضِ کتابت میں آیا تھا، کیونکہ (بقول ان کے) قرآن کا نسخہ اُولیٰ مدینہ منورہ میں ’عجمی سازش‘ کا نشانہ بن گیا جس کے نتیجہ میں ہر تحریر شدہ مواد ضائع ہو گیا تھا۔ اب اگر عربوں کے قوی حافظہ کا ذِکر کوئی ’عیب‘ اور ’جرم‘ ہے تو اس کا ارتکاب خود طلاع ِ اسلام بھی کر چکا ہے۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیے۔ 1. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی اپنے بعد اہل عراق کے قضایا اور فتاویٰ کا بیش بہا ذخیرہ چھوڑ گئے تھے۔ جو لوگوں نے یاد کر لیا اور وہی دستور شمار کر لیا گیا۔‘‘ [3] میں یہاں منکرین حدیث کے سلیم القلب حضرات کے سامنے یہ سوال رکھا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قضایا و فتاویٰ تو ایسی کام کی چیزیں تھیں کہ لوگوں نے اُنہیں یاد کر لیا، لیکن کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ک و قرونِ اولیٰ کے مسلمان ناکارہ اور نکمی چیز سمجھتے تھے اس لئے اُنہوں نے یاد کرنے کی بجائے نظر انداز کر دیا؟ کیا واقعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں نبی علیہ الصلوٰۃ واسلام کی اتنی بھی قدر و قیمت نہ تھی جتنی بعد کے لوگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھی، جن کے قضایا و فتاویٰ تو یاد داشتوں کی صورت میں دستوری حیثیت اختیار کر گئے، لیکن نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات، خود صحابہ ہی کے ہاتھوں آئینی حیثیت اختیار نہ کر پائیں؟ خدارا! کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اس سوال پر غور کیجئے۔ شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات! 2. ’’اس کے بعد حماد بن ابی سلیمان آئے جنہوں نے ان (نخعی رحمۃ اللہ علیہ ) کے مجموعہ کو اپنے سینہ میں جمع کیا۔‘‘ [4] |